ماں نے اپنے پانچ سالہ بچے کو نہلایا، نئے کپڑے پہنائے،
خوشبو لگائی اور پیار دے کر گلی میں ننھے منے دوستوں سے کھیلنے کے لیے بھیج
دیا۔ گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچے نے اپنے کپڑے اور جسم کیچڑ
اور مٹی سے لت پت کر دیے۔ جب گھر جانے کا وقت آیا تو وہ ڈر کے مارے گلی میں
ہی دبکا……رہا کہ اگر گھر گیا تو یہ حشر دیکھ کر امی جان ڈانٹیں گی۔ جب بچہ
کافی دیر تک گھر نہ آیا تو ماں پریشان ہو کر دروازے پر آ گئی اور بچے کو
کیچڑ سے لتھڑا ہوا دیکھ کر سمجھ گئی کہ ننھے میاں گھر کیوں نہیں آ رہے۔ اس
نے مسکراتے ہوئے بچے کو بلایا اور کہا:‘‘میں کچھ نہیں کہتی۔ آ جاؤ
تاکہ……میں تمہیں نہلا کر نئےکپڑے پہنا دوں۔ بچہ ڈرتے ڈرتے گھر آ جاتا ہے۔
ماں بچے کو پکڑ کر اس کے گندے کپڑے اتار دیتی ہے اور نہلا دھلا کر، صاف
ستھرے کپڑے پہنا کر اورخوشبو لگا کر اسے کہتی ہے: ‘‘جاؤ جا کر کھیلو۔ لیکن
اب کپڑے گندے نہیں کرنا۔’’ بچہ یہ سن کر خوشی خوشی ‘‘کپڑے گندے نہ
کرنے……کا ننھا، کمزور اور معصوم سا عزم’’ لیے گلی کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ انسان کو گناہوں سے پاک صاف دنیا میں بھیجتا ہے۔
لیکن انسان دنیا میں آکر کفر،شرک اور دوسرے کئی گناہوں کی گندگیوں سے اپنے
آپ کو لت پت کر لیتا ہے۔اب اﷲ اپنے ان گناہگار بندوں کو بتاتا ……ہے
کہ:‘‘اے میرے وہ بندو!جنہوں نےاپنے آپ کو گناہوں کی گندگیوں سے آلودہ کر
دیا ہے میرے پاس لوٹ آؤ تاکہ میں تمہیں اپنی رحمت سے نہلا دھلا کر دوبارہ
گناہوں سے پاک کر دوں۔’’ اب جو بندہ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتا ہوا،
اپنے پچھلے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر اور آئندہ گناہ نہ……کرنے کا عزم
لے کر،اپنے رب کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کا رب اسے قبول فرماتا ہے اور اس سے
گناہوں کی آلائشوں کو دور کر کے اسے تقویٰ کا لباس پہنا دیتا ہے۔اسے اپنے
محبوب بندوں کی صف میں شامل فرما لیتا ہے۔
یہ دو اندازِ قبولیت ہیں۔ ایک انداز ِ قبولیت اس ماں کا ہے جو اپنے بچے سے
شدید……محبت کرتی ہے اوردوسرا اندازِ قبولیت اس ہستی کا ہے جو اپنے بندے سے
ستر ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی ہے۔
|