ماں کا لفظ زبان پر آتے ہیں گھنی ٹھنڈی چھاؤں کا احساس
ذہن میں ابھرتا ہے ۔میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کو زندگی کے
53سال ماں جی کی محبت حاصل رہی ۔میری والدہ کا نام ہدایت بیگم تھا۔ وہ
فریدکوٹ شہر کے پوربی محلے کی حویلی نواب خان میں1935ء کو پیدا ہوئیں۔ میری
والدہ اورمیرے والد دونوں خالہ زاد تھے۔یوں وہ دونوں ایک ہی جیسے ماحول اور
ایک ہی گھرانے میں بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کی منزلیں طے کرتے رہے۔شادی کے
ایک سال بعد ہی دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک عظیم اسلامی مملکت کے روپ میں
ابھرا۔ انہیں اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ ہجرت کرکے قصور شہر قیام پذیر
ہونا پڑا ۔جہاں کوٹ مراد خان میں25 دسمبر 1954ء کو میری پیدائش ہوئی ۔ حسن
اتفاق سے اسی دن والد صاحب کو ریلوے میں ملازمت مل گئی۔اس لیے مجھے خاندان
کے لیے خوش نصیب تصور کیا گیا ۔والد سے میری محبت کا کوئی حساب ہی نہیں تھا
لیکن ماں میری کل کائنات تھی، جو صبح سویرے اٹھتی،لکڑیوں کا چولہا جلاکر گڑ
والی چائے بناتیں۔ رات کی بچی ہوئی روٹیوں کو ہم کیک سمجھ کر کھاجاتے۔ صرف
والد صاحب کیلئے تازہ روٹی پکتی تھی۔ والد کی ان دنوں تنخواہ 80 روپے تھی۔
اتنی قلیل رقم سے مرغ پلاؤ تو کھائے نہیں جاسکتے تھے۔ ہمیں تو سالن بھی دن
میں ایک آدھ بار ہی نصیب ہوتا۔ وگرنہ کبھی گڑ ، پیاز اور نمک مرچ کے محلول
سے روٹی کھا کر پیٹ بھر لیا جاتا۔ قلعہ ستارشاہ تین سال قیام پذیر رہنے کے
بعد والد صاحب کی ٹرانسفرواں رادھارام( حبیب آباد) ہو گئی۔ جو پتوکی سے
ساہیوال کی جانب دوسرا اسٹیشن ہے۔یہاں پہنچ کر میری عمر سکول جانے کی ہوچکی
تھی،چنانچہ مجھے گورنمنٹ پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ سکول
ہمارے کوارٹروں کے بالکل پیچھے تھا۔ ریلوے کوارٹر تو ویسے بھی انسانوں کی
بجائے قیدیوں کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ جن میں نہ غسل خانہ اور نہ لیٹرین ہوتی
تھی ۔ واں رادھا رام میں ہمارا قیام چھ سال رہا ،گویا میں نے وہاں کچی پکی
پہلی دوجی ،تیجی اور چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔جب میرا بڑا بھائی
رمضان حصول تعلیم کے لیے پتوکی بذریعہ ٹرین جانے لگا تووالد صاحب نے اپنی
ٹرانسفر لاہور چھاؤنی کروا لی۔یہ 1964ء کا سال تھا ۔لاہور چھاونی میں آنے
کے بعد بھی حالات تبدیل نہ ہوئے بلکہ ا ضافی آمدنی حاصل کرنے کے لیے والد
صاحب کو ڈیوٹی کے علاوہ مزدوری بھی کرنی پڑی۔یہاں بھی رہنے کے لیے ہمیں
چھوٹا سا کوارٹر ہی ملا جس میں ایک چھوٹا سا کمرہ ، تین فٹ کا برآمدہ اور
ایک چارپائی جتنا صحن تھا ،یہاں بھی نہ باتھ روم اور نہ غسل خانہ تھا۔اس
کوارٹر میں ہم پانچ بھائی والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ جگہ کی کمی کی
وجہ سے والدہ نے دو دو چارپائیوں کو اوپر نیچے بچھا رکھا تھا ۔ ایک چارپائی
کے نیچے ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی تھی ۔جس پر آٹا پیسنے کی ڈیوٹی میری
اور والدہ کی ہوا کرتی تھی۔ سرخ ثابت مرچیں پیسنے کا مشکل ترین کام ہر شام
والد صاحب ہی انجام دیا کرتے تھے۔گیلی لکڑیوں سے آگ جلانا بھی ایک مسئلہ
تھا ،اس لیے والدہ موسم برامدے میں سوکھی لکڑیا ں اکٹھی کر لیتیں ۔لوہے کی
پھونکنی سے سلگتی ہوئی لکڑیوں کو پھونکیں مار مار کرجب آگ نہ جلتی تو سارا
گھر دھوئیں سے بھر جاتا ، والدہ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔جب میں گھر میں
ہوتا تو پھونکنی سے پھونکیں مارنے کی ڈیوٹی میرے سپر د کر دی جاتی ۔ سردیوں
کی صبح ہمیں سردی سے بچانے کیلئے والدہ لکڑی کے بجھے ہوئے کوئلے جلا کر مٹی
کی انگیٹھی میں ڈال کر ہمارے درمیان رکھ دیتیں۔ ہر ظلم اور زیادتی کے خلاف
ہم اپنی والدہ کی پناہ ہی تلاش کرتے تھے جو ہمیں ہر خطرے سے محفوظ رکھتیں۔
گرمیوں میں چھوٹے سے کوارٹر میں جب حبس بڑھ جاتا تو ماں ہمیں گرمی کی شدت
سے بچانے کیلئے چھت پر لگے ہوئے اینگلارم کے ساتھ بڑا سا کپڑا باندھ لیتیں
اور اس کپڑے کو رسی کے ذریعے کبھی اپنے ہاتھ سے ہلاتیں اور کبھی اپنے پاؤں
کے انگوٹھے سے۔ جب بھی میری آنکھ کھلتی تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوجاتاکہ
والدہ خود تو سو رہی ہیں لیکن ان کے پاؤں مسلسل حرکت کر رہاہے۔ میں سمجھتا
ہوں کہ یہ اولیانہ قوت اﷲ تعالیٰ نے صرف ماؤں کو عطا کی ہوتی ہے۔ جس کی
تمام تر محبتوں اور توجہ کا مرکز ان کی اپنی اولاد ہوتی ہے۔میری والدہ کو
اﷲ تعالیٰ نے بیشمار ہنربھی عطا کررکھے تھے۔ وہ سویٹر اور جرسیاں بن
لیتیں۔وہ لیسیں بھی خوب بنا لییتں۔ کپڑے سینے کا فن بھی والدہ کو خوب آتا
تھا۔ فرصت کے لمحات میں نہ صرف والدہ ہمارے کُرتے‘ پاجاموں کی سلائی کرتیں
بلکہ ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے دوسروں کے کپڑے بھی سی لیتیں۔
ماں جی کو چرغہ بھی کاتنا خوب آتا تھا۔ گھر کے صحن ماں نے مٹی کا تندور بھی
لگوا رکھا تھا۔کبھی کبھی بینگن کا بھرتھا بنا یا جاتاتو پھٹوں کو کاٹ کر
ہری مرچیں اور نمک ڈال کر دوپہر کی روٹی اس سے کھا لی جاتی۔ میری والدہ آلو
گوبھی‘ سرسوں کا ساگ‘ چھوٹے آلوؤں کی بجیاں اور آلو چھولیا بہت مزے کا
پکالیتی تھیں۔ ایک پاؤ بڑا گوشت تو ہمیں ہفتے دو ہفتے میں ایک بار ہی نصیب
ہی ہوتا تھالیکن بوٹیاں والد صاحب اور بڑے بھائیوں کے لیے ہی مخصوص ہوتیں
اورمجھے اکثر شوربے ہی سے روٹی کھانا پڑتی تھی۔ ماں جی مجھے پیار سے سوہنا
کہہ کر پکارتی۔حالانکہ بچپن میں اتنا خوبصورت نہیں تھا لیکن ماں جی اپنی
محبتیں نچھاور کرنے کے لیے مجھے سوہنا کہتیں۔مجھے زندگی بھر وہ خوف ناک رات
نہیں بھولتی جب ہمارے کوارٹر میں سالانہ سفیدی ہورہی تھی ،گھر کا سارا
سامان بکھرا پڑا تھا جبکہ شام ہوتے ہی بادلوں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا ۔
اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ وہ رات ہم ایک بوسیدہ کے کمرے میں گزاریں گے ۔جو
کوارٹروں کے پیچھے ہم نے بنا رکھا تھا جہاں آجکل بھائی اکرم کے بیوی بچے
رہائش پذیر ہیں ۔جیسے ہی ہم گہر ی نیند میں اترے تو طوفانی بارش نے ماحول
کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔اس کمرے کی چھت سے پانی آبشار کی طرح ٹپکنے لگا ۔والدہ
نے بستر کو چھوڑا اور اپنی رضائی مجھ پر ڈال کر خود چھت سے ٹپکنے والے
بارشی پانی سے ہمیں بچانے لگی ۔حسن اتفاق سے اس کمرے کا فرش بھی ایک فٹ
گہرا تھا ۔بارش کا پانی نہ صرف کمرے کی چھت سے مسلسل گررہاتھا بلکہ فرش پر
جمع بھی ہورہا تھا۔والدہ ساری رات اسی برف جیسے بارشی پانی میں پھرتی رہیں
جس سے انہیں سخت بخارنے آگھیرا۔ انہوں نے اپنی اولاد کو بارشی پانی سے
بچانے کے لیے جو کردار ادا کیا تھا وہ ہمارے دل میں ماں جی کی عظمت کا
مزیداظہار بن گیا ۔وقت گزرتا رہا اور ماں جی کو جسمانی بیماریوں نے گھیرنا
شروع کردیا ۔ ان کے سینے میں دائیں جانب درد کے شدید احساس نے ہم سب کو
پریشان کردیا تو میں انہیں اپنے ساتھ لے کر سروسز ہسپتال جا پہنچا ۔
ڈاکٹروں نے چیک کرکے بتایا کہ ان کے پتے میں پتھری ہے، اس کا علاج صرف
آپریشن ہے ۔جبکہ ماں جی آپریشن کے لفظ ہی سے الرجک تھیں ۔ ایک دن مجھے کسی
دوست نے بتایا کہ کالا خطائی روڈ پر سائفن کے قریب لبانوالہ گاؤں ہے ۔اس
گاؤں میں ایک اﷲ والا رہتا ہے جو گردوں کا شافی علاج کرتا ہے ،اﷲ نے اسکے
ہاتھ میں بہت شفا دے رکھی ہے، ہسپتالوں سے اٹھ کرلوگ اس کے پاس جاتے ہیں
اور شفاحاصل کرتے ہیں ۔ ہوسکتاہے آپ کی والدہ کا علاج بھی وہاں ہوجائے ۔میرے
پاس گاڑی تو تھی نہیں۔ چنانچہ اﷲ کا نام لے کر میں موٹرسائیکل پر والدہ کو
اپنے ساتھ بیٹھا کر پہلے شاہدرہ پھر کالا خطائی روڈ پرپہنچا پھرطویل سفر طے
کرکے لبانوالہ گاؤں پہنچ گیا۔وہاں پہنچ کر بائیک کا میٹر دیکھا تو گھر سے
فاصلہ 45کلومیٹر تھا ۔اس اﷲ والے نے والدہ سے بات کرکے کچھ دوائی وہاں پینے
کو دی اور باقی گھر میں استعمال کے لیے دے دی ۔مجھے وہاں تین مرتبہ جانا
پڑا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ والدہ تکلیف کی شدت سے محفوظ ہوگئیں ۔10جون 2007ء
اتوار کا دن تھا اور صبح ہی سے والدہ کی طبیعت خراب تھی، ہم انہیں فوری طور
پر سروسز ہسپتال لے گئے لیکن سوا تین بجے دوپہر نیم غنودگی کی حالت میں
میری عظیم والدہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔بیشک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی
کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ |