بیوی کے ازدواجی حقوق(حصہ دوم)


تمام رشتوں اور تعلقات کے ہر جائز معاملے میں شوہر کو ترجیح دینا۔
اس کے ماں باپ سے، خصوصا ماں سے اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح حسن سلوک اختیار کرنا ،کیوں کہ مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے، جب کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔شوہر کے ماں باپ یا دوسرے اعزہ کی طرف سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا شوہر کو طعنہ نہ دینا کہ وہ تو ایسے ہیں، ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔ اسی طرح شوہر کی طرف سے پہنچنے والی ناگواری کی وجہ سے اس کو کوستے ہوئے اس کے والدین وغیرہ کو درمیان میں داخل نہ کرنا، مثلا: تم بھی ایسے ہو اور تمہارا فلاں اور فلاں بھی ایسا ہی ہے۔
شوہر کو بلا وجہ اس کے ماں باپ اور گھر انے سے الگ ہو جانے کے لیے اصرار نہ کرنا۔
شوہر کے لیے کشمکش کے حالات نہ پیدا کرنا جن میں اس کے لیے بیوی اور اپنے دیگر متعلقہ رشتوں کے درمیان فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔
شوہر کو معاشرے میں یعنی اپنے علاوہ لوگوں میں عزت دینا۔ اس کے ساتھ کسی دوسرے، خصوصاً اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں وغیرہ کے سامنے اس سے بحث و تکرار نہ کرنا۔بلاوجہ شکوہ وشکایت کا رویہ اختیار نہ کرنا۔
بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھنا۔
اپنی سوکنوں سے اچھے رویے سے پیش آنا اور کبھی کبھی انہیں اپنے حق پر ترجیح دینا۔
بچوں کے جو معاملات ان کے باپ سے خصوصا متعلق ہیں یا جن معاملات میں باپ انہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دے، تو بچوں کو یہ باور کروانا کہ ان کا باپ ان کے اور ان کی ماں کے معاملے میں پوری طرح خود مختار ہے۔
گھر میں بھی اور باہر بھی ہر جائز کام میں شوہر کے ہر جائز فیصلے کی تصدیق کرنا، ان فیصلوں کی تائید میں اس کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان پر عمل درآمد میں حتی المقدور اس کی معاونت کرنا۔
اس کے دیگر رشتہ داروں کو بھی پردے اور دیگر شرعی اصولوں کے اہتمام کے ساتھ عزت دینا اور شوہر کے ان سے ملنے میں راضی رہنا۔
شوہر کی راز اور پردے کی باتیں دوسروں سے محفوظ رکھنا۔
دوسروں کے سامنے اندرون خانہ مشکلات کو بطور شکوہ وناشکری ذکر نہ کرنا۔
شوہر کی آمدن اور گھر بار کے دیگر وسائل سے زیادہ اس سے مطالبے نہ کرنا۔
بے جا مطالبات، حد سے بڑھی ہوئی اپنی ضروریات اور فضولیات پوری کروانے کے لیے شوہر پر دباوٴ نہ ڈالنا، قناعت کی صفت والی عورتیں اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسندیدہ ہیں۔ خاوند کی آمدن کے اندر ہی اپنی جائز ضروریات پوری کروانا۔
اس کے مال کی حفاظت کرنا، اسی طرح ضرورت کے کاموں میں بھی فضول خرچی نہ کرنا، بلکہ کفایت شعاری کو اختیار کرنا۔
شوہر کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کے مال کو خودیا کسی کو استعمال کے لیے نہ دینا۔ ہاں، چھوٹی موٹی ایسی چیزیں جن کے بلا اجازت استعمال کر لینے کے بارے میں معروف ہے کہ شوہر ناراض نہیں ہو گا ان کے استعمال میں حرج نہیں۔
شوہر کی اجازت کے بغیر سلائی ، کڑھائی وغیرہ معاشی مصروفیات میں مشغول نہ ہونا، کیوں کہ اس کا نان ونفقہ تو شوہر پر ہی واجب ہے، اس لیے اس میں مشغولیت کے ساتھ کہیں گھریلو ذمہ داریوں اور خاوند کی خدمات ضروریہ میں خلل نہ واقع ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو یہ یقینا آپس کی رنجش اور اختلاف کی طرف لے جانے والا ہے، لہٰذا بلا اجازت ایسے کاموں میں نہ پڑے، ہاں! اگر شوہر کی بھی تمنا ہو اور گھریلو مصروفیات سے بھی کچھ وقت مل جائے تو پھر ایسی مشغولیات میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
قلبی حقوق دو طرح کے ہیں:
1.. روحانی پاکیزگی۔
2. ذہنی سکون۔
شوہر دین کے معاملے میں جتنا آگے بڑھنا چاہے اس کا بھر پور تعاون کرنا اور اسے اس کام کے لیے فارغ کرنا۔ اس کی دینی ضروریات کے پورا ہونے کے لیے جہاں تک ہو سکے اپنے حقوق کی قربانی دینا۔
اگر شوہر دعوت وتبلیغ، جہاد یا حصول علم کے لیے نکلنا چاہے تو اس کا تعاون کرنا، بخوشی اسے اجازت دینا، بلاوجہ اس کے ان خیر کے ارادوں میں رکاوٹ نہ بننا، واضح رہے کہ اپنے ایمان واعمال صالحہ کی درستگی اور بہتری کے لیے جدوجہد کرنا خاوند کی ایمانی ضروریات میں سے ہے، ان کی تکمیل کے لیے وہ قدم اٹھاتا ہے، اُس میں اس کی معاونت کی جانی چاہیے۔ اور اگر رکاوٹ محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہو تو پھر ایسی صورت میں خاوند کا اللہ کے راستے میں نکلنا بیوی کی حق تلفی شمار نہیں ہو گا۔ اور اگر رکاوٹ کسی حقیقی عذر کی وجہ سے ہو تو اس صورت میں شوہر کا نہ نکلنا بذات خود ایک شرعی حکم ہے۔
شوہرکے لیے، اُس کے ماں باپ اور دیگر متعلقین کے لیے دنیا و آخرت کی خیر کی دعائیں کرنا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ سے روایت ہے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا : ”أَيُّ النِّسَاءِ خَیْرٌ؟ قَالَ:”اَلَّتِيْ تَسُرُّہُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِیْعُہُ إِذَا أَمَرَ، وَلاَ تُخَالِفُہُ فِيْ نَفْسِہَا وَمَالِہَا بِمَا یَکْرَہُ“․ (مشکوٰة)

ترجمہ: کون سی عورت اچھی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب شوہر اسے دیکھ لے تو خوش کر دے اور جب اُسے حکم کرے تو اطاعت کرے اور اپنی ذات اور اپنے مال میں ایسا تصرف نہ کرے جسے شوہر پسند نہ کرتا ہو۔
ذہنی سکون دینا ایک تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا تمام حقوق اس کے پورے کیے جائیں،
بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے قول و فعل پر اعتماد کرے، بلا وجہ کسی شک وشبہ میں نہ پڑے۔
اپنے آپ کو شوہر کی نظروں میں حقیقتاً قابل اعتماد بنانے کی کوشش کرتے رہنا۔
اس کی تکالیف اور مشقتوں میں اس کو تسلی دینا ، حتی الوسع اس کے ساتھ تعاون کرنااور اس کا مشکور رہنا۔
اس کے سامنے بلا ضرورت غیر مردوں یا غیر عورتوں کے حسن وجمال کے تذکرے نہ کرنا۔
گھر میں ہو یا باہر اپنی عزت و عصمت کی حفاظت اور دیگر احکام ِاسلام پر خود اہتمام سے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں پر اُن کی محنت کے ذریعے شوہر کو مطمئن رکھنا۔
اپنی زیب وزینت اور آرائش کو شوہر کے لیے ہی خاص کرنا اور خصوصا اپنی ہر طرح کی جسمانی نظافت ، یعنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا۔
اس کی کسی بھی پریشانی کے وقت میں اپنی بے پروائی اور لا تعلقی ظاہر نہ کرنا اور اس کے حل کے لیے اپنی کوشش کرنا اور عمدہ رائے دینا۔
مناسب حد تک اپنی تکالیف اور مسائل کا اس سے تذکرہ کرنا، تاکہ وہ اپنائیت محسوس کرے۔
مناسب حد تک اسے اپنی ضرورتوں اور خواہشات سے آگاہ رکھنا۔
شوہر کی بے دینی کی وجہ سے اس کی طرف سے پہنچنے والی تلخیوں، ایذا رسانیوں اور نادانیوں پر آخری حد تک صبر کرنا۔
اپنی بدزبانی اور کسی بھی قسم کی ایذا رسانیوں سے اُسے محفوظ رکھنا۔حضرت معاذ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لَا تُؤْذِي اِمْرَأَةٌ زَوْجَھَا فِي الدُّنْیَا إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُہُ مِنَ الحُورِ الْعِیْنِ: لا تُؤذِیْہِ قَاتَلَکِ اللہ! فَإِنَّمَا ھُوَ عِنْدَکِ دَخِیْلٌ، یُوْشِکُ أَنْ یُفَارِقَکِ إِلَیْنَا“․ (مشکوٰة)

ترجمہ: ”جب کوئی عورت اپنے شوہرکو ستاتی ہے تو (آخرت میں)جو حور اُس کو ملنے والی ہے وہ یوں کہتی ہے کہ خدا تیرا ناس کرے! تو ا س کو مت ستا، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، تھوڑے ہی دن میں وہ تجھ کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے گا“۔
کوشش کرنا کہ گھریلو معاملات شوہر کے گھر آنے سے پہلے خود ہی نمٹا لیے جائیں۔
شوہر کے گھر آتے ہی اسے مسکرا کر سلام کر کے ملنا ، مشقت نہ ہو تو کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرنا، پانی کا پوچھنا یا پیش ہی کر دینااور اگر کوئی پریشانی کی بات ہو تو فورا اس کا اظہار نہ کرنا اور حتی الامکان اُسے مؤخر کرنے کی کوشش کرنا۔
وقتا فوقتا، خصوصا شوہر کے کسی سفر سے واپسی پر اُس کے لیے کسی مناسب ہدیے کا انتظام کرنا اور ایسے موقع پر کھانے وغیرہ کی تیاری میں بقدر ممکن اہتمام کرنا۔
گھر میں موقع بموقع کسی جائز ہنسی مذاق یا کھیل کی شکل میں تفریح کے مواقع پیدا کرتے رہنا۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558424 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More