گوشت مبارک

جب قارئین اس تحریر کو پڑھ رہے ہوں گے عید گذر چکی ہو گی پھر بھی عید مبارک۔عید منانے والی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ سعودی عرب والوں کے ساتھ تو دوسرا حصہ اپنے کیلنڈر کے مطابق عید مناتا ہے۔ پاکستان میں آج عید ہے جبکہ سعودی عرب سمیت کچھ ممالک میں کل عید تھی۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ چند سال قبل تک عید اسی دن مناتے تھے جس دن سعودی عرب میں عید ہوتی تھی۔ کل صبح لندن میں مقیم بیٹے کو عید مبارک کہنے کے لیے کال کی تو معلوم ہوا کہ ان کی مسجد والے آج عید نہیں منا رہے بلکہ (ہماری) عید کل ہو گی۔

میرے بچپن میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں چاند نظر آجاے تو پختون خواہ والے بھی عید کر لیا کرتے تھے۔ میری جوانی کے دنوں میں پختون خواہ اور بلوچستان میں الگ الگ دن عید ہوتے بھی دیکھی ۔ پھر ہم نے ایک لاکھ آبادی والے شہر میں تین تین عیدیں بھی دیکھیں۔

دارلعلوم دیوبند والے کہتے ہیں (اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)

سادہ سی بات ہے کہ آج پاکستان میں جمعرات ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی جمعرات ہی ہے۔ پاکستان میں دن کا آغاز ہونے کے دو گھنٹے بعد سعودیہ میں دن کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے دو گھنٹے بعد لندن میں دن شروع ہوا۔ تاریخ البتہ تینوں جگہ ایک ہی ہے۔ عید منانے کے لیے دو گھنٹے کا فرق پورے ایک دن میں بدل جاتا ہے۔

علماء دین سنن النسائی کے حوالے سے روائٹ پیش کرتے ہیں کہ مدینہ میں موجود حضرت ابن عباس نے شام میں چاند نظر آنے کا اعتبار نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف دین ہی کے علماء یہ بھی مانتے ہیں کہ ابن عباس کے دور میں مدینہ سے شام تک کا تیز ترین گھوڑے پر سفر بھی کم از کم آٹھ دن کا تھا۔ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ (چاند نظر آجائے یا نظر آنے کی اطلاع مل جائے تو عید کر لینی چاہیے) نبی اکرم ﷺ کی روایات اور امام ابو حنیفہ کی ہدایات یہ ہیں کہ چاند نظر آنے کے بعد عید کر لینی چاہیے۔ 2016 میں ترکیہ کے شہر استنبول میں دنیا بھر سے مسلمان اسکالر جمع ہوئے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پوری دنیا میں عید ایک ہی دن ہونی چاہیے۔ اور دلیل یہ دی گئی کہ دن کی ابتداء ہر ملک میں مختلف وقت میں ہوتی ہے۔ اگر جمعرات کے دن پاکستان میں صبح کی نماز سورج نکلنے سے پہلے تک ہو سکتی ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی یہی اصول نافذ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ میں دن دو گھنٹے بعد اور لندن میں مزید دو گھنٹے بعد شروع ہو گا۔ یہی وہ بنیادی دلیل ہے جس کو تسلیم کر کے او آئی سی نے دنیا بھر میں ایک ہی دن عید کرنے کی سفارش کی تھی۔

اپنی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھ کر عید کرنے کی بجائے۔ دوسرے فرد کی شہادت کوتسلیم کرنے کی تاکید موجود ہے۔ فرد کی بجائے ادارے کی شہادت کو قوی تر مانا جاتا ہے۔

عید قربان پر حضرت ابراہیم کی عظیم قربانی پر خراج تحسین پیش کرنے پر کتنے جانور قربان کیے جاتے ہیں اور اس پر کتنی رقم صرف ہوتی ہے، کا حساب لگانے کی کوئی موثر طریقہ حساب موجود نہیں ہے۔ مگر اس سال صرف سعودیہ میں قربانی کے لیے بیرون ملک سے درآمد جانوروں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے۔ اس تعداد میں وہ جانور شامل نہیں ہیں جومقامی طور پر پالے گئے تھے۔ اس تعدا د کو ذہن میں رکھ کر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہر سال عید قربان پر دنیا بھر میں کروڑوں ڈالر کی رقم خرچ کر کے، اللہ تعالی کے عظیم پیغمبر کی عظیم قربانی کی سنت پوری کی جاتی ہے۔ مسلمان قربانی کے جانور پر رقم خرچ کر کے اپنے دل کو مطمن کرتے اور اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔


پچھلی عید الفطرپر ایک پروفیسر صاحب نے نجی محفل میں سوال اٹھایا تھا (کیا دین کا مسلمانوں پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تعلیمات اور علوم کی روشنی میں اپنے تہوار ایک ہی دن منائیں) اس سوال کا جواب طویل مدت سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل کو اپنے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں مل رہے۔ یہ شعر تو ایمان کی حدت کو دھکاتا ہے

مسجد تو شب بھر میں بنا دی ایمان کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نماز ی نہ بن سکا

پچھلی عید الفطر پر ایک گیارہ سالہ بچے نے کہا تھاساری دنیا عید منا رہی ہے اور ہم نے شیطان کی طرح روزہ رکھا ہوا ہے۔

دین کے بارے میں نئی نسل کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہیں مل رہے۔ جو تشویش کی بات ہے۔ مگر جس طبقے کو تشویش میں مبتلاء ہونا چاہیے وہ مسلمانوں کی عید کی بجائے (ہماری) عید کا اسیر ہے۔ ٹیکنالوجی اور علوم پر بھروسہ کرنے کی بجائے کٹ ہجتی کا سہارا لیتا ہے۔

جمہوری معاشروں میں اپنی سنائی جاتی ہے تو دوسروں کو سنا بھی جاتا ہے۔ اپنی دلیل منوائی جاتی ہے تو دوسروں کی مانی بھی جاتی ہے۔ عادل منصف وہی ہوتا ہے جو فیصلہ کرنے سے پہلے فریقین کا موقف سنتا ہے۔ ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ خود کو حق کا راہی اور دوسروں کو گمراہی کا مسافر سمجھا جاتا ہے۔ مگر درد یہ ہے کہ اس روش کا شکار وہ دین کا علمبردار ہے جو خود کو پیغمبرانہ تعلیمات کا وارث گردانتا ہے۔ مگر فرماتا ہے

(اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)

عید گذر چکی ۔ قربانی ہو گئی۔ گوشت مگر باقی ہے۔ گوشت مبارک
Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.