بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
مغربی نشاۃ ثانیہ کے بعد دنیا میں عقل و دانش کے فروغ کے ذریعے دنیا کی جس
سعادت و خوشبختی اور مسرت کیلئے دعوے کیے گئے تھے وہ سب پہلی اور دوسری جنگ
عظیم کے بعد ڈھیر ہوگئے۔ آج کے دور میں ہمیں نیچرل سائنسز کے ساتھ سوشل
سائنسز کے فروغ کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دنیا انسانی مزاج کو جو جسم و روح
اور عقل و جذبات پر مشتمل ہوتا ہے اس کی تسکین کیلئے جامع منصوبہ تشکیل دے
اور اس کیلئے بغیر کسی مکتب سے تعصب کے تحقیقات کریں۔
ہمارے سامنے ماضی کے تجربات بھی ہیں جو ہماری ہدایت کیلئے کافی و وافی ہیں۔
آج دنیا نے اپنے تمام فنون اور ہنر جتنے انسانی دماغ میں موجود ہوسکتے تھے
آزما لئے آج 21 ویں صدی میں دنیا کی سربراہی تبدیل ہورہی ہے اور مغرب سے
مشرق کی طرف چین کی ترقی کی صورت میں وقوع پذیر ہورہی ہے اور یہ بھی
تقریباً وہی پالیسیز کو اپنے سربراہی میں جگہ دے رہے ہیں جو مغربی استعمار
استعمال کرچکا ہے اور دنیا کے سامنے یہ تمام حقائق موجود ہیں۔ لہذا دانشمند
ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ۔
لیکن کیا ہمیشہ ترقی اور فضیلت کا معیار اقتصادی ترقی کو گرداننا درست ہے؟؟
کیا انسانی اقدار اور انسانی رویئے کسی قوم کے اس قابل نہیں ہوتے کہ اس کو
دنیا میں سپر پاور کہا جائے۔۔۔مغربی نشاۃ ثانیہ سے قبل اسلامی سنہری ادوار
کو جس علم و دانش سے منسوب کیا جاتا ہے وہ بھی ملوکیت کے طریق پر رہا جس کا
ثبوت یہی ہے کہ یہ قوت مغرب منتقل ہوگئی ۔ نظام امامت سے روگردانی کرکے جس
طرح مسلمان حکومتیں زوال پذیر ہوئیں اور مغرب ابھرا اسی روش پر آج مغرب
زوال پذیر ہے۔ آئندہ بھی زوال کیلئے یہی قوانین ہیں جو پچھلی قوموں نے
تجربہ کیے۔ جس میں سر فہرست منصب الہٰی امامت و ولایت سے روگردانی ہے۔
سختیاں، پریشانیاں بہت بری ہوتی ہیں یقینا ہوتی ہیں مگر یہ پریشانیاں بھی
نعمت ہیں، جن سے نکلنے کیلئے انسان کوشش، جستجو، محنت ، جانفشانی کرتا ہے
اور اپنے زنگ آلود وجود کو کھرچ کر چمک دار بنا دیتا ہے۔۔یہ دانش بہت اہم
ہے ، البتہ کوشش، جستجو، محنت اور جانفشانی کا ایک معین ہدف جو خلقت کائنات
سے مربوط ہے طالب علم کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ معلم پر بھی واجب ہے کہ اس
علم و دانش کا مقصد عالم انسانیت پر الہٰی حاکم اور اسلامی حکومت کے قیام
کی عملی کوششیں کرنے کیلئے طلبہ کے ذہن تیار کرے اور ان کو عملی جہتوں سے
آگاہ کرے۔الہٰی حکومت اور سیاست ہی ہوتی ہے جو معاشرتی عدل و سماجی انصاف
کے فراہمی میں سب سے اہم کام کرتی ہے۔
عالمی وسائل کی غیر عادلانہ تقسیم، تفریح کے نام پر اخلاق سوز نشریات، علم
کے نام پر کارپوریٹ غلاموں کی تیاری، صحت کے نام پر بیماریوں کا فروغ،
سیاست کے نام پر ابلیسی ایجنٹس کی تعیناتی وغیرہ کا نعم البدل خدائی
نمائندے کی حکومت ہوتی ہے۔ یہ الہٰی حکومت ہی وہ منتظم ہوتی ہے جس سے
معاشرے کا نظم و نسق درست انداز میں چلتا ہے اور سماجی ضابطہ قرار دیئے
جاتےہیں، اس شعبے میں عائلی زندگیوں سے جو افراد آتے ہیں وہ تعلیمی
درسگاہوں اور معلموں کے مرہون منت ہوتے ہیں کہ جیسا ذہن اور فکری ساخت وہ
تیار کرتے ہیں وہی ہمیں سیاست اور دیگر تمام شعبہ جات میں نظرآتا ہے۔
درسگاہیں ہوتی ہے جو سماج بناتی ہیں اور اسی سماج سے افراد سیاست و معیشت و
نشریاتی اداروں میں آتے ہیں، ان کے ذہن اگر نظریہ امامت اور سماجی شعور ،
سماجی عدالت وغیرہ سے پُر ہونگے تو عملی زندگی اور عام عوام کی زندگیوں میں
قانون سازیاں اور پالیسیز اسی طرح نظر آئیں گی۔معاشرے میں سختیاں،
پریشانیاں کم ہوتی جائیں گی۔ خدائی نمائندہ اور امام کے ساتھ طاغوتی ائمہ
سے بھی آگاہی ہونا ضروری ہے۔
انسان نہ تو عقل و دانش کے بغیر رہ سکتا ہے اور نہ ہی جذبات و احساسات کے
بغیر۔ لہذا اس بات کا تقاضا زور پکڑتا ہے کہ معیشت کو بہتربنانے والے علم و
دانش کے ساتھ انسانی اخلاق و رویوں کو بہتر بنانے والے علم و دانش کو بھی
فروغ حاصل ہو اور اس کیلئے بھی دنیا پر الہٰی اور خدائی نمائندے کی حکومت
ضروری ہے، حکومت ہی وہ شعبہ ہے جہاں سے تمام نیکیاں یا برائیاں پورے معاشرے
میں صادر ہوتی ہیں۔ غور کیجیے جب جب دنیا میں زور، زبردستی ، دھونس،
بدمعاشی کا چلن ہوا کرہ ارض کے مکینوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ یہ زور
وزبردستی کے پس پشت ہمیشہ وہ سیاسی گروہ رہے جو معاشی طاقت و مادّی طاقتوں
کے حامل تھے اور ان کے پیچھے وہ معلم تھے جنہوں سے سفاکیت اور چوری کے ذہن
تیار کیے۔ اگر کہیں مذاہب کے ماننے والوں میں بھی ان صفات نے جنم لیا تووہ
بھی مادّی مفادات کے تحت۔۔۔۔ہمیں ایسے مذہبیوں کی بھی تربیت کرنا ہے جو
دنیا پر اسلامی حکومت کے حوالے سے حساس نہیں ہیں اور اسلامی حکومت کے فائدے
اور سعادتوں کو درک کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
اسلام انسانی معاشرے کو ایسے کمال پر دیکھنے کا خواہشمند ہے جو اس دنیا کے
ساتھ ساتھ اخروی سعادت کیلئے بھی جدوجہد کرتا ہو۔ یہی دنیا وی حکومت جو
اسلامی ہو اورخدائی نمائندہ حاکم ہو ، آخرت کی کھیتی ہے ۔۔۔۔ بطور مسلمان
ہمارے لئے فرض ہے کہ ہم سماجی شعور میں اضافہ کریں اور انسانی سماج کی فلاح
و سعادت کیلئے انتھک جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں اور علم و دانش
اور درسگاہوں میں اس امر کو یقینی بنائیں کے طلبہ کے ذہنوں میں ظلم سے نفرت
اور الہٰی اور خدائی اخلاق و تقوے کا فروغ ہو جس کا سب سے بڑا ذریعہ حکومت
اسلامی ہے۔۔۔تاکہ حکومت اسلامی کے نظم تلے ہر معاشرے کے ہر شعبہ میں اخلاق
و رواداری اور دیگر دوسرے شعبے جیسے انتظامی ، معاشی، سیاسی، علمی وغیرہ
درست راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔
معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ رسمی علم و دانش کے ساتھ دینی علم و
دانش و بصیرت کا حامل ہو۔ سیاسی امور سے غافل نہ ہو۔ نیز عائلی زندگی جو کہ
معاشرے کا ایک بنیادی رکن ہے اس کو بھی فراموش نہ کرے۔اسلامی معاشرے کے فرد
کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت جو خداوند متعال نے اسے عطا کی ہے اس سے
انحراف نہ کرے اور اپنے وجود کو جو خدا کی طرف سے امانت ہے اس کی ذمہ
داریوں سے آگاہ ہو۔ اپنی خلقت کے ہدف سے آگاہ ہو، انبیاء رسل اور ائمہ ؑ کی
زندگیوں اور ان کے ارسال کا مقصد و ہدف سے بھی آگاہی رکھتا ہو۔ اور خود
اپنے لئے بھی ان اہداف و مقاصد سے ہم آہنگی پیدا کرے تاکہ یہ دنیاوی معاشرہ
جو آخرت کی کھیتی ہے کہ عنوان کے طور پر یہاں اعمال کی زراعت کرسکے۔
اگر علوم انسانی و سماجی منحرف ہوجائیں اور غلط و نادرست بنیادوں پر قائم
ہوجائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام اعمال و تحرکات بھی
غلط اور نادرست روشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج مغرب میں جو علوم ہیں یہ علم
و دانش مسلسل استعمار کی خدمت میں مصروف ہے، دھوکہ دینے، غلام بنانے ، ظلم
و جبر کیلئے استعمال کیے گئے، اقوام عالم کی دولت لوٹنے کیلئے استعمال کیے
گئے۔ ائمہ جور کی اطاعت میں ابھی بھی یہ اسی کام میں مشغول ہیں۔۔۔ یہ نتیجہ
ہے اسی غلط فکر، غلط نظر اور غلط بنیادوں کا اور غلط اہداف کا۔ یہ علم
ودانش کہ جو اتنی عظمت رکھتا ہے۔۔۔ خود علم جو رحمت ہے ، عزیز ہے کریم ہے
اسے غلط انداز سے استعمال کیا گیا، اس کا ہدف اور مقصد وہ نہیں ہے جو خالق
کائنات نے مشخص کیے ہیں۔ مغربی علم و تہذیب جس مغالطہ اور ڈھٹائی کے ساتھ
عالم انسانیت کو جبر اور زبرستی کے ذریعے زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے
اس میں ان کے وسائل میں میڈیا ، تعلیم اور معاشیات بہت اہم جزو کے طور پر
شامل ہیں۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مادیات کے چکر میں معنوی اقداروں کو
عبث اور بے کار باور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور معنوی اقداروں سے
مملو اسلامی نظام کو اپنے مقاصد میں رکاوٹ تصور کرتےہیں۔
آج کے دور میں چونکہ طاغوت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حملہ آور ہے تو اس
موقع پر طاغوت کے ساتھ سخت رویہ رکھنے کی ضرورت ہے یہ کام الہٰی حکومت ہی
انجام دے سکتی ہے اور ہر وہ دین جس سے انسانی معاشرے کے مسائل حل نہ ہوں،
ظالم مقتدر ہورہے ہوں تو ایسے دین کو ترک کردینا چاہےکیونکہ یہ دین کے نا م
پر ابلیسیت ہے۔ ایسا علم ودانش جو معاشرے کے مسائل حل نہ کرے، لوگوں کیلئے
فائدہ مند نہ ہو وہ بے کار ہے۔ علم و دانش کا مسائل حل کرنے میں بنیادی امر
یہی ہے کہ طلبہ کو سماجی مسائل کے حل کا شعور دیا جائے اور سب سے اہم کہ
سماجی مسائل کے حل کیلئے ایسی حکومت کے قیام کی سوچ دی جائے جو حلّال ِ
مسائل ہو۔ ایسی حکومت صرف اسلامی ہوسکتی ہے اور فقیہ یا مومن کی یا امام
معصومؑ کی سربراہی میں معاشرے کی ترقی کی ضامن ہوسکتی ہے۔
آج میڈیا, سیاست دان, مرچنٹس سب دنیا کا سب سے اہم مسئلہ معاشی باور کروانے
میں جتے ہیں۔ اور معاشی ڈسکورس تخلیق کرکے صہیونی سرمایہ داری نظام کو قبول
کرنے کے جواز بنارہے ہیں۔ مظلوم روبوٹ زدہ کولہو کے بیل عوام بھی معاشی
مسائل کو بنیادی مسائلہ سمجھ رہے ہیں معاش بنیادی مسئلہ نہیں ہے ، البتہ
معاشیات کے مسائل ہیں ۔۔۔۔مگر اس کی جڑ کہیں اور ہے۔ معاشی مسائل ثمر ہے
غیر عادل سیاستدانوں کی بددیانت معاشی پالیسیوں کا۔۔۔۔اور سیاست میں ایسے
لوگ ثمر ہیں۔۔۔۔بے شعور بے بصیرت استادوں، معلموں اور درسگاہوں کا۔۔۔۔لہذا
مسائل کی جڑ تعلیم و تربیت میں کوتاہی ہے۔۔۔۔نام نہاد علماء, نام نہاد
دانشور, نام نہاد اساتذہ؛ کرپٹ سیاستدان, کرپٹ مرچنٹ اور دیگر تمام کرپشنز
کا منبع ہیں ۔۔۔۔ یہ معلم اور درسگاہیں فساد کی جڑ ہیں۔ لہذا ان کی اصلاح
کی ضرورت ہے۔
معلم اور درسگاہ اگر طلبہ میں توحید، امامت اور معاد کی اہمیت سائنسی انداز
میں یعنی منطقی انداز میں پیش نہیں کررہا ہے اور طلبہ کو دنیا کے پست شعبوں
کیلئے لالچی انسان تشکیل دے رہا ہے تو وہ علم و حکمت و دانش سے خیانت کررہا
ہے۔ دنیا داری کیلئے علم کا حصول اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب کلّی ہدف
معاشرے پر الہٰی حکومت کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا بھی تعلیم دیاجارہا
ہو۔ایسی تعلیم اور ایسا معلم جو سماجی انصاف کے مرکز، معاشرتی عدالت کے
جوہر یعنی امامت کی طرف رغبت دلانے کے بجائے اور طلبہ کو کارپوریشنوں کا
غلام بنا رہا ہے یا لالچی اور ہوس پرست تاجر بنا رہا ہے، یا کرپشن کرنے
والے سیاستدان اور جج و وکیل بنا رہا ہے تو معاشرہ موجودہ صورتحال سے مزید
بدترین کی جاتا رہے گا۔تعلیم روزی روٹی کے ساتھ دنیا کے تمام مسائل کے حل
کرنے والی اسلامی حکومت اور عادل حاکم کے قیام کیلئے بھی ہونی چاہیے اگر
ایسا نہیں ہے تو پھر خواہ صہیونی یہودی ہوں یا پھر بے بصیرت و بے دانش
مسلمان ۔۔۔ پھر معاشرے کے مسائل کا حل نہیں ہے۔۔۔ اور ایسی تعلیم نہ تو
عبادت ہے اور نہ ہی ایسا معلم ہرگز مقدس۔۔۔!! |