ہم بچوں کو کیسے پڑھائیں

بلاشبہ معلمی محض ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ شیوہ پغمبری بھی ہے اسی لئے پڑھانے سے پہلے آپکو ایک استاد کی حیثیت سے اپنی ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کا پتہ ہونا چاہئے، ٹیچنگ محض ایک پروفیشن ہی نہیں بلکہ یہ کئی ذمہداریوں کا مجموعہ ہے، اس میں آپ کو پڑھانے کا ہنر بھی آتا ہو، آپ کو ایک انتظامی امور پر بھی عبور حاصل ہو، آپکی مشاورت کی صلاحیت بھی شاندار ہو، آپ بچوں کو موضوع کی جانب متوجہ بھی کر سکتے ہوں اور ان کے مستقبل کو سنوارنے کا فن بھی جانتے ہو، آپ طلباء کی نفسیات سے بھی آگاہ ہوں اور سب سے بڑھ کر آپکو اپنے شاگردوں کے لئے عملی نمونہ بھی ہوں ، بحیثیت استاد آپ میں کن کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے آئیے دیکھتے ہیں.

*1: تدریس سےمحبت*
آپکو اگر پڑھانے سے محبت نہیں ہے اور محض روزی کمانے کیلئے پڑھاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ دنیا کی بدترین خیانت ہے۔ پڑھانے اور اپنی سٹوڈنٹس سے محبت آپکو اپنے کام میں بہترین کوشش پر مجبور کرے گا۔

*2 موضوع کی تیاری*
جو بھی مضمون پڑھایا جائے اس پر نہ صرف عبور ہو بلکہ اس کے ہر موضوع کی تدریس کرنے سے پہلے تیاری بھی کی جائے۔اتنی دلجمعی اور شوق سے پڑھا یا جائے کہ ٹاپک بچوں کو ذہن نشین ہو جائے اور بچے نہ صرف سمجھ جائیں بلکہ ان کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی آ جائے

*3بچوں کی عزت*
عزت ہر ایک بندے کا بنیادی حق ہے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، استاد ہو یا طالبعلم ۔ آپ اگر اپنے شاگردوں کو عزت نہیں دینگے وہ آپکی عزت نہیں کرینگے ۔ یہ ایک نصیحت کہہ لیں کہ جو طالبعلم مجھے جتنا ذیادہ تنگ کرتا ہے میں اسے اتنا ہی ذیادہ عزت دیتا ہوں کہ وہ بیچارہ میری بات سننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

*4: تعمیر سیرت*
بچوں کو ایسے اسباق دے جو انکے پوری ذندگی میں کام آئے مثلا ان کو بات کرنے کا ہنر سکھائے، ان میں صفائی کی عادت ڈالیں ان میں اعتماد پیدا کرے ان میں اپنے کردار سے نرمی اور خلوص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

*5: ہمدردی کے جزبات*
اکثر اوقات ہم ری ایکٹ کرنے کے عادی ہوتے ہیں مثلا بچہ شور مچاتا ہے تو استاد اس سے ذیادہ تیز آواز میں ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگتا ہے۔ شاگرد کوئی شرارت کرتا ہے ہم فورا ڈنڈا اٹھا لیتے ہیں کبھی ہوم ورک نہیں کرتا ہم اسکی سنے بغیر اسے رگڑا دیتے ہیں ۔ مثلا بچہ کلاس میں سو رہا ہیں ہم اسے فورا کلاس سے باہر نکال لیتے ہیں ، ہو سکتا ہو اسنے پوری رات گندم کی کٹائی یا بجلی خراب ہونے کے باعث جاگ کر گزاری ہو۔۔۔ جب تک آپ بچے کی جگہ خود کو رکھ کے اسے نہیں سمجھیں گے تعلیم و تربیت کا یہ عمل بے اثر رہے گا ۔

*6: بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق تدریس*
بچے کو اسکی ذہنی سطح اور سمجھ بوجھ کے مطابق کام دیا جائے۔ ہوم ورک اور سزا دونوں میں ہم اکثر یکسانیت کا شکار ہوتے ہیں ۔ کلاس میں کم از کم دو سے تین گروپ بنانے چاہیئے تاکہ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق انکو کام دیا جا ئے۔ کمزور طلباء کو سب سے آسان اسباق میں ٹسٹ دینا چاہئے تاکہ انکا اعتماد بحال ہو سکے اور تدریس کے عمل کو مفید بنایا جا سکے۔

*7: سبق میں شمولیت*
کلاس میں تقریر کرنے کی بجائے سوال و جواب کے انداز میں کنڈکٹ کرنا چاہئے ۔ اس سے طلباء سوال و جواب میں مصروف ہو کر آپکو تنگ بھی نہیں کریں گے ، انکی توجہ بھی برقرار رہے گی اور سیکھنے میں آسانی ہو گی

*8: تعریفی کلیمات*
ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ایک مایوس معاشرہ ہے ۔ یہاں پر آپ کو لوگ مایوس کرنے کیلئے ہزاروں وجوہات دینگے لیکن بہت کم لوگ آپ کو ان کریج کرنئگے ۔ کچھ یہی حال اساتذہ کا بھی ہے۔ بچہ اگر دس چیزیں ٹھیک لکھتا ہے تو ہم اسکی توڑی سی بھی تعریف نہیں کرینگے لیکن اگر وہ دو غلطیاں کرتا ہے تو پھر ہمارا میٹر گھوم جاتا ہے۔ سزا و جزا کے بجائے جزا و سزا کا قانون ہونا چاہئے ۔ بچے نے اگر ایک بھی چیز ٹھیک کیا ہے تو اسکی تعریف ہونی چاہیے کیونکہ تعریف سے بہترین موٹیوشن اور کوئی نہیں....

*9 جمہوری رویہ*
ایک بہترین معلم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنی کلاس میں جمہوری رویوں کو فروغ دے گا اور ایسا ماحول فراہم کرے گا جس میں طلبا کی رائے کو سنے گا ان کی رائے کا احترام کرے گا سب کو یکساں اہمیت دے گا امیر غریب ، کالے گورے میں تمیز نہیں کرے گا اگر کوئی نکتہ اعتراض اٹھانے تو اس کا برا نہیں منائے گا بلکہ احسن طریقہ سے جواب دے گا

*10 سیکھنے سکھانے کا ماحول*
ایک بہترین معلم کی خوبی یہ ہے کہ کمرہ جماعت میں ایسے ماحول کو پروان چڑھا ئے کہ بچے سن رہے ہیں، سیکھ رہے ہیں اور ہنسی خوشی کام کر رہے ہیں۔ طلبا کا استاد کے ساتھ، ایک دوسرے کے ساتھ بہترین انڈر سٹینڈ نگ پائی جاتی ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ مدد اور احترام کا جزبہ برقرار ہے۔

Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Muhammad Saleem Afaqi: 21 Articles with 37568 views PhD Scholar in Education
MA International Relations
MA Political Science
MA Islamiyat
.. View More