مائٹ اِز آلویز رائٹ

انسان کے وجود میں آتے ہی اولین ضرورت اس کو اپنا جسم ڈھانپنا تھا، اس کے بعد اس کی کچھ خوراک کی طلب، اس کے بعد اس کی بنیادی نفسیانی خواہش کی تکمیل اور ان سب کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے جسمانی یعنی طبعئی مضبوطی۔محض جسمانی صحت وتندرستی اور بنیادی عقلِ سلیم کے باعث وہ اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کر پاتا تھااور ان کے لئے اس کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہوتی۔جنگل میں فطری طور پر ایک قبائلی نظام قائم ہوگیا جس کا سربراہ سب سے مضبوط جسمانی حیثیت والا انسان بن جاتا تاکہ جنگلی جانوروں یا کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں اپنے قبیلہ کی رہنمائی و حفاظت کر سکے۔جسم ڈھانپنے کے لئے درختوں کے پتّے و چھال، خوراک کے لئے شکار کے واسطے درختوں سے تیر کمان و پتھروں سے دیگر ضروریات کے اوزار استعمال کئے جاتے۔ نفسیانی خواہشات پوری کرنے کے لئے کسی قسم کا کوئی قانون، اخلاقیات یا ضابطئہ حیات حائل نہ تھا اور اکثر اوقات یہ ضرورت دیگر کسی کمزور قبیلہ سے حاصل کی ہوئی جنس اٹھا کر لانے اور اپنی خواہش پوری کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہ ہوتا۔

جس طرح قبیلہ کا سردار ہونے کے واسطے جسمانی صحت سب سے بہتر ہونا لازم ہؤا، اسی طرح ذہنی شعور،فہم و فراست اور عقل و دانش بھی ایک انسان کو دوجے سے برتر ہونے میں نہایت اہم کردار ادا کرنے لگے کیونکہ خطرناک اور اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور درندوں کا شکار اور کسی دوسرے قبیلے کا شکار بھی چوری کرنے یا چھیننے کے لئے اور کمزور قبیلوں کی عورتوں کو اٹھا کر اپنے قبیلے میں لانے کے لئے یہ تمام مذکورہ عناصر کا استعمال ہی تو منصوبوں کو پائیہ تکمیل کو پہنچاتا ہے۔اس کے علاوہ بڑھاپے اور جسمانی طور سے کمزور ہو جانے کی صورت میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور زندگی کی تمام ضروریات پوری کرنے میں بھی تو ان ہی عناصر کا ایک درجہ ہونا نہائیت اہم ہے۔جو آگے چل کر تفصیل سے بیان کیا جائیگا۔

ضعیفی و جسمانی طور سے کمزور ہو جانے میں انسان کی اپنی تمام ضروریات پوری کرنا محال اور ایک اسٹیج پر ناممکن ہو جاتا ہے، ایسے کڑے وقت کے لئے ایک دولت ہی ہے جس کے ذریعے اپنی تمام ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں ۔دولت سے مُراد پیسہ، کرنسی یا نوٹ ہی نہیں ہوتا بلکہ کوئی بھی ایسی شے ہو سکتی ہے جو کسی دوسرے اپنے سے زیادہ طاقتور انسان کو اپنا غلام بنا سکے جیسے طاقتور ہونے کے دور میں ہی اپنے کسی قریبی ساتھی کو سردار بننے کے لئےنامزد کردینا اور اس سے اس کے عوض اپنے جمع شدہ شکار میں ہی حصہ دار بنا کر یہ عہد لے لینا کہ وہ اس کے کڑے وقت میں اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی تمام ضرروریات بھی پوری کرے گا۔بعینہیہ دوچار دیگر اشخاص کو بھی کوئی نہ کوئی لالچ دے کر اپنا گرویدہ بنا لینا۔ اور یوں اپنی ذہانت سے نت نئے طریقوں کے ذریعے اپنے مخدوش مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے جمع شدہ پونجی ہی کام آسکتی ہے ۔

گویا مذکورہ بالا نظام ازل سے قائم ہے اور لگتا یوں ہے کہ اب یہ ابد تک ہی رہے گا البتّیٰ معمولی ردّو بدل وقت کے ساتھ ان تین مراحل میں ضرور آیا ہے لیکن بنیادی فلسفہ وہی ہے کہ "طاقت کے فیصلے ہی صحیح کہلاتے ہیں، انہیں کمزوروں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے ورنہ وہ رائج الوقت قبیلہ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، طاقتور کا حکم انہیں ماننا ہی پڑتا ہے اور یہ طاقت ہے تین عناصر کا مجموعہ؛ جسمانی طاقت، ذہنی طاقت اور مالی طاقت"۔ انگریزی میں مائٹ اِز رائٹ ( (Might is Right کہا جاتا ہے اور میں اس کو مزید تشریح کے ساتھ مائٹ اِز آلویز رائٹ ( (Might is Always Rightکہتا ہوں۔اس کے خلاف نہ تو آواز اٹھائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کو ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک فطری یعنی آفاقی نظام ہے جو خالقِ کائنات سے منظور شدہ ہے ۔ بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ ہے کہ خالقِ کائنات کا نظام بھی اس کے قریب تر ہے ۔ خالقِ کائنات کی حیثیت کو اس انداز سے تو بیان نہیں کیا جا سکتا جیسے ایک انسان کو ، یعنی طبعئی اعتبار سے خالقِ کائنات کے جسم، ذہن یا مالی حالت کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور نہ ہی اس کی بے پناہ طاقت کا محاصرہ کیا جاسکتا ہےلیکن وقتاً فوقتاً اس کی طاقت کے نمونے ہم دیکھ بھی سکتے ہیں اور غور کریں تو اس طاقت کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہے جس کی لاتعداد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔باشعور انسان اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔خالقِ کائنات اور انسان یا کسی بھی مخلوق کی طاقت کے استعمال میں نہایت ہی بنیادی اور نمایاں فرق ہے۔ خالقِ کائنات نے اپنے طور پر اپنی تمام مخلوقات کے ضابطئہ حیات طے کر دئے جن کے تحت عملدرآمد نہ کرنے والی مخلوق کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اس میں انسان بھی شامل ہے۔ انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات میں اتنا شعور نہیں کہ وہ اپنے اپنے معاشرے یا قبیلہ کے لئے کوئی ضابطئہ حیات بنا سکے اور نہ ہی ان مخلوقات کو کوئی ارتقائی منازل طے کرنے ہوتے ہیں ، یہ وصف محض انسان کو عطا کیا گیا کہ وہ اپنے معاشرے یا اپنے قبیلے کے لئے فطرت کے قریب قریب کوئی ضابطہ بنا لے اور اس کے مطابق ایک بہتر اور آسان زندگی گزار لے ، ساتھ ہی اس کو ارتقائی منازل بھی طے کرنے کا اختیار دیا گیا اور یوں انسانی مخلوق اشرف المخلوقات کہلائی۔ایک بڑے کینوس پر یہ خاکہ بنایا جائے تو اس کو یوں بیان کیا جائیگا کہ انسان کو ایسا ضابطئہ حیات بنانے کا مشورہ، ہدایات، پیغام دیا گیا جس سے انسان کی فلاح مقصود ہو۔اس پیغام، ہدایت، حکم یا مشورہ کو عام انسان تک پہنچانے کا طریقہ خالقِ کائنات نے خود طے کیا اور یہ ہر طاقتور و کمزور انسان کو سمجھانے کے لئے ایک کتاب کی صورت دے دی جس کو عرفِ عام میں ہم مقدس کتاب یا کتابیں کہتے ہیں۔ کتاب کا مجموعہ میں نے اس لئے استعمال کیا کیونکہ ہر دور میں اس وقت او رحالات کے مطابق حکم نامے یا ہدایات جاری کی گئیں جو وہاں اس معاشرہ یا قبیلہ کے لئے مناسب ترین ہوں۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112814 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More