نوافل کی برکتیں

میرے معزز یاروں یہ بات ہر ذی شعور اور اہل ایمان مسلمان بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد سب سے پہلا سوال جو ہوگا وہ نماز کے بارے میں ہوگا نماز کسی صورت میں معاف نہیں ہے بوجہ شرعی اس میں تخفیف یعنی آسانی مہیا کردی گئی ہے لیکن بیماری ہو یا سفر میں ہوں یا حالت جنگ میں ہوں نماز ادا کرنے کی بڑی سختی سے تلقین کی گئی ہے قران مجید اور احادیث مبارکہ میں بھی نماز کا ذکر کثیر تعداد میں آیا ہے عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہم لوگوں کا رجحان زیادہ تر فرض نماز کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور سنتیں ہوں یا نوافل ان کی طرف توجہ کم ہوتی ہے بلکہ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ نوافل پڑھتے ہی نہیں ہیں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی تحریر میں ہم یہ پڑھیں گے کہ نوافل کی اہمیت کیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں نوافل کے بارے میں کیا حکم دیا ہے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی احادیث سے ہمیں نوافل کے بارے میں کیا ہدایت ملتی ہیں اور اولیاء کرام و بزرگان دین کے معمولات میں نوافل کی کیا اہمیت نظر آتی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نفل کے معنی کیا ہیں ؟ اس کا مفہوم کیا ہے؟ اصل میں نفل اس کام کو کہتے ہیں جو مسلمان پر فرض نہ ہو بلکہ وہ اپنی خوشی سے اسے انجام دے نفل نماز اصل میں فرض نمازوں کو مکمل کرنے میں کام آتی ہے اور اس کے نقص کو پورا کرتی ہے سنن ابودائود کی ایک حدیث کے مطابق حضرت تمیم الداری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ترجمعہ " قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے اگر اس نے مکمل پڑھی ہوگی تو مکمل لکھ دی جائے گی اور مکمل نہیں پڑھی ہوگی تو اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دے گا کہ دیکھو کہ میرے اس بندے نے کوئی نفل نماز پڑھی تھی یا نہیں (اگر نفل نماز پڑھی تھی تو ) اس کے ذریعے اس کی فرض نمازوں کو مکمل کردو اس کے بعد زکوہ کا اور باقی تمام اعمال کا حساب بھی اسی طرح لیا جائے گا " ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نفل نماز کے پڑھنے کی وجہ سے درجات کی بلندی ہوتی ہے اور گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے مسلم شریف کی حدیث نمبر 488 میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ترجمعہ " تم زیادہ سے زیادہ سجدے کیا کرو کیوں کی تم اللہ کی رضا کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو وہ اس کے بدلے تمہارا ایک درجہ بلند کردے گا اور ایک گناہ کو مٹا دے گا "

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں جن سجدوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ نوافل میں ادا ہونے والے سجدے ہیں کیوں کہ فرض نماز کے سجدے تو فکس ہیں جبکہ نوافل کے سجدوں کی تعداد کوئی متعین نہیں ہے آپ کے اندر جتنی قوت اور طاقت ہے اتنے نوافل پڑھیں اور اپنے سجدوں کی تعداد بڑھاتے جائیں اور اپنے درجات کی بلندی کے ساتھ ساتھ گناہوں کو مٹانے کا سبب بنیں میرے یاروں ایک حدیث کے مطابق سرکار علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " میرا بس چلے تو میں ان گھروں کو آگ لگادوں جہاں مرد نماز پڑھتے ہیں " اور مسلم کی حدیث نمبر 778 میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " جب تم میں کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھے تو وہ اپنی نماز میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کے لئے بھی رکھے کیوں کہ گھر میں کچھ نماز ادا کرنے سے اللہ تعالی اس گھر میں خیر و بھلائی لاتا ہے " ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب آپ کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہوگا کہ یہ دونوں حدیثوں میں اختلاف کیوں تو یاروں دراصل پہلی حدیث فرض نماز کے خکم پر ہے یعنی فرض نماز کا ادا کرنا سوائے مسجد کے اور باجماعت کے کہیں اور حکم نہیں تو سرکار علیہ وسلم نے ان مردوں کے لئے ارشاد فرمایا کہ جو فرض نماز گھر پر ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے لئے وعید کی کہ میں ان گھروں کو آگ لگا دوں اور دوسری حدیث کے مطابق آپ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نوافل کے پڑھنے کے حکم ہر یے یعنی نافل کی ادائیگی کے لئے سب سے افضل ترین جگہ گھر ہے آپ علیہ وسلم فرض کی ادائیگی جماعت کے ساتھ کرکے باقی نافل اکثر اپنے حجرے میں جاکر پڑھا کرتے تھے۔

میرے واجب الاحترام ہڑھنے والوں ہمارے کئی انبیاء کرام ، صحابہ کرام ، اولیاء کرام اور بزرگان دین کے ان گنت نوافل پڑھنے کے واقعات اور قصے ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ ریشمی کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے اور ایک مصروف بازار میں آپ علیہ الرحمہ کی دوکان تھی اتنی مصروفیت کے باوجود آپ علیہ الرحمہ کبھی اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہ رہتے تھے حضرت اسمعیل علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ روزانہ دوکان کھولتے صاف صفائی کے بعد ایک پردہ لٹکا کر کم و بیش 400 نوافل پڑھتے تھے اور یہ آپ علیہ الرحمہ کا معمول تھا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گھر میں نوافل نماز پڑھنے کی تلقین سرکار علیہ وسلم نے اس لئے بھی کی کہ بندہ فالتو کاموں سے بچ جایے گھروں میں برکت نازل ہو اور اللہ تعالی کی رحمتیں چھماچھم برسنے لگے فرشتوں کا آنا جانا لگا رہے اور شیطان مردود وہاں سے بھاگ جائے طویل سجدوں کا مطلب ہے نوافل کی ادائیگی اور اس کے لئے سب سے افضل جگہ اپنا گھر بتایا گیا ہے البخاری کی حدیث نمبر 4837 کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ علیہ وسلم کے پیر پھٹنے لگتے میں عرض کرتی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ علیہ وسلم ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی نے تو آپ علیہ وسلم کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں تو آپ علیہ وسلم ارشاد فرماتے " کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں ؟"

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں طویل قیام کا مطلب سجدوں کی کثرت ہے اور سجدوں کی کثرت کا تعلق کثرت نوافل سے ہے ثابت یہ ہوتا ہے کہ فرائض پر ہمیشگی کرنے والے کو اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوتی ہے اور نوافل ، روزہ ، زکوہ اور صدقہ پر ہمیشگی کرنے والے کو اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوتا ہے ( فتح الباری 343/11) نوافل کے بارے میں ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پھر بیٹھکر پڑھتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا نوافل بیٹھکر ہم پڑھ سکتے ہیں ؟ ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کئی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ نوافل نماز بیٹھکر پڑھ سکتے ہیں اور احادیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے خود عشاء کی وتر کے بعد پڑھنے والے نوافل بیٹھکر پڑھے ہیں البخاری کی حدیث نمبر1115 کے مطابق حضرت عمرا بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اگر قیام کی حالت میں یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھے تو افضل ہے اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اسے آدھا اجر ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے گا اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے اجر سے آدھا اجر ملے گا "۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مستحب یہ ہے کہ اگر بحالت مجبوری کوئی شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور اپنی نماز ادا کرے جیسے کہ النسائی کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں مطلب یہ کہ یہ بات ذہن نشیں کرکے کہ بیٹھ کر نوافل پڑھنے سے اجر وثواب آدھا ہوگا بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمار ارد گرد اس وقت کے جو مستند علماء اور مفتی موجود ہیں ان میں ایک بڑا اور معتبر نام جناب مفتی محمد اکمل قادری صاحب دامت برکاتہم کا بھی ہے آپ فرماتے ہیں کہ بغیر شرعی عذر کے بھی صرف فرض کو چھوڑ کر باقی سنتیں اور نوافل دونوں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی ممانعت نہیں یے بس یہ بات ذہن نشیں ہونی چاہیئے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب آدھا ملے گا اس پورے کرہ ارض پر سوائے سرکار علیہ وسلم کی ذات کے کوئی نہیں جسے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب بھی مکمل یعنی پورا ملتا ہے اور یہ صرف آپ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح المسلم کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا اجر ادھا ملتا ہے لیکن آپ علیہ وسلم خود بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن عمرو تمہیں کیا ہوا ؟ میں تم میں سے کسی ایک کی بھی مانند نہیں ہوں ۔
میرے واخب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے لئے کئی معملات میں اپنے خاص کرم کا اہتمام کیا ہے مزکورہ حدیث سے بھی یہ ہی بات بتانا مقصود ہے ۔ کئی احادیث سے ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ سوائے فرض نماز جو کہ ہمیں باجماعت مسجد میں پڑھنے کا حکم ہے باقی سنتیں اور نوافل پڑھنے کے لئے سب سے افضل جگہ گھر کو قرار دیا گیا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ افضل عبادت وہ نفلی عبادت ہے جو ہمیشگی پر ہو چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو یعنی مسلسل اور ہمیشہ کرنے والی ہو جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک بنو اسد کی عورت بیٹھی تھی اس دوران سرکار علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ علیہ وسلم نے ہوچھا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا یہ فلاع عورت ہے رات کو سوتی نہیں اور اپنی نماز کا تزکرہ کررہی تھی تو آپ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " ٹھر جائو تم اتنا عمل کیا کرو جتنی تمہاری طاقت ہے کیوں کہ اللہ تعلی نہیں کہتا کہ تم اکتا جائو " ۔

میرے واخب الاحترام پڑھنے والوں اس کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کرنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے لیکن اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ عبادت اس قدر کرو کہ جتنی تمہارے اندر قوت ہو اور تم پر تھکاوٹ کی وجہ سے بیزاریت نہ ہو اگر چاہو تو وقفہ وقفہ سے بھی عبادت کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہو اور نوافل وہ عبادت ہے جس کے ذریعے آپ اللہ تعالی کا قرب اور محبت حاصل کرسکتے ہیں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سے کسی نے پوچھا کہ نوافل کی اتنی کثرت کیوں کرتے ہیں تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اسی نوافل کے صدقہ سے تو ہم نے اللہ تعالی کو پایا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جہاں تک نوافل کی تعداد کی ہم بات کریں تو اس کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے کیوں کہ انسان کسی بھی معاملے کے لئے اللہ تعالی سے رجوع کرنے کے لئے نوافل کا سہارہ لیتا ہے یعنی نماز حاجات ، نماز توبہ ، نماز گرہن ،نماز سفر ، نماز کسوف ،نماز خوف اس کے علاوہ اشراق کی نماز چاشت اور تہجد کی نماز بھی نوافل میں ہی شمار ہوتی ہیں یہاں تک کہ نماز تراویح بھی نوافل میں ہیں ان تمام قسموں کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوافل سے ہی اللہ تعالی کا قرب اور اس کی محبت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فرائض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی اہل ایمان مسلمان کا شیوا نہیں بلکل اسی طرح سجدوں کی کثرت سے اپنے درجات کی بلندی کےلیئے اور گناہوں کے خاتمے کے لیئے ہمیں نوافل کی کثرت کرنا ہوگی کتنی پیاری بات ہے کہ اگر دل میں کوئی جائز خوہش ہو دو رکعت نفل پڑھکر اللہ تعالی سے رجوع کرلو خواہش پوری ہوجائے گی اگر کوئی پریشانی یا مشکل ہو تو دو رکعت نفل پڑھکر اللہ تعالی سے رجوع کرلیں مشکل حل ہوجائے گی اللہ رب العزت اگر ناراض ہے تو نوافل کی کثرت سے اسےمنانے کی کوشش کریں وہ رب بڑا کریم ہے جلدی مان جانے والا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ سرکار علیہ وسلم کو جنت کے سیر کرنے کی خواہش ہوئی آپ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ مجھے جنت کی سیر کروائو تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ وسلم کو لیکر گئے ابھی آپ علیہ وسلم داخل ہوئے ہی تھے کہ قدموں کی آہٹ سنائی دی تو آپ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ مجھ سے پہلے جنت میں کس کے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے تو حضرت جبرائیل نے عرض کیا کہ یہ آپ علیہ وسلم کے غلام حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں کی آواز ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار علیہ وسلم جب واپس اپنے حجرے میں تشریف لائے تو حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلوایا جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ تشرئف لائے تو آپ علیہ وسلم نے پوچھاکہ تم ایسا کونسا عمل کرتے ہو کہ اللہ رب العزت نے تمہیں جنت میں مجھ سے پہلے داخل کردیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ایسا کوئی عمل نہیں کرتا تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں کوئی تو ہے تو کچھ سوچنے کے بعد حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں ایک کام کرتا ہوں کہ جب بھی آذان ہوتی ہے تو میں وضو کرکے دو رکعت نفل تحت الوضو پڑھ لیا کرتا ہوں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھیں یہ بھی نفل نماز ہے اور اس نماز کی برکت بھی آپ نے دیکھ لی میرے معزز یاروں اللہ رب العزت کی محبت اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیئے نوافل کو ترک کرنا چھوڑ دیں اور بیٹھ کر پڑھنے کی بجائے کوشش کریں کہ قیام کے ساتھ یعنی کھڑے ہوکر پڑھیں زندگی کے معاملات اور معمولات زندگی سے وقت نکال کر اللہ باری تعالی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ذکر و ازکار میں اپنا وقت صرف کیجیئے فالتو اور بے مقصد کاموں سے بچتے ہوئے نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیئے کیوں کہ کثرت سجود سے ہی ہمیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جو ہر اہل ایمان مسلمان کی خواہش اور آرزو ہوتی ہے تمنا ہوتی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نوافل کی برکتیں اور فوائد کا جو تذکرہ ہمیں قران و حدیث اور علماء کی مختلف کتابوں میں ملتا ہے ہم اس کا ایک پرسنٹ بھی ابھی ذکر نہیں کر پائے ہیں لیکن المختصر میں نے کوشش کی ہے کہ آپ لوگوں تک نوافل کے فوائد اور برکتوں کی کچھ تفصیل رکھ سکوں ہوسکتا ہے اسے پڑھ کر ان شاء اللہ ہم سب آج سے ہی کثرت سجود کی خاطر نوافل پڑھنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرکے دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرنے کی سعادت حاصل کریں دعا ہے کہ ہم جیسے گناہ گاروں کا بروز محشر یہ نوافل ہی بخشش کا ذریعہ بن جائیں اور ہمیں بھی اللہ رب الکائنات اپنے خاص اور محبوب بندوں کی صف میں شامل کرکے اپنی محبت اور اپنا قرب عطا کردے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم.
محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 133619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.