آشا بھوسلے نے سولہ سال کی عمر میں لتا منگیشکر اور اپنے
اکتیس سالہ پرسنل سیکرٹری گنپت راؤ سے شادی کر لی جس کی وجہ سے بڑی بہن لتا
اور آشا دونوں کے درمیان کئی دھائیوں تک دوری رہی۔ بعد میں وہ شادی درست
ثابت نہ ہوئی اور آشا اپنے تین بچوں کو ساتھ لے کر ماں باپ کے گھر رہنے
لگیں، بارہ ہزار سے زیادہ گانے گائے، پیسہ اور شہرت دونوں ساتھ تھے، میوزک
ڈائریکٹر آر ڈی برمن کیساتھ دوبارہ شادی کی جو 1994ء میں چل بسے، ایک بیٹی
ورشا بھوسلے نے 2012ء میں ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لی۔۔۔ جب آشا بھوسلے
نے اپنی زندگی کی زیادہ بُرے اور تلخ، تھوڑے اچھے اور خوشحال دنوں پر محیط
اٹھ دھائیاں گزار لیں تو ایک روز لتا منگیشکر سے کہنے لگیں؛
"دی دی میرا من گانے سے زیادہ ناچنے کو کرتا تھا، میں چاہتی تھی کہ میں ایک
ڈانسر بنوں۔۔۔ مگر کبھی کر نہ پائی۔"
لتا منگیشکر نے اپنے انداز میں کہا؛
"آشا اب تم کتنے سال کی ہو؟"
آشا نے جواب دیا؛
"اسی سال کی۔۔۔"
لتا منگیشکر نے کچھ توقف کے بعد کہا؛
"تو پھر تم اب کچھ بھی کر سکتی ہو، لوگ کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔"
دونوں بوڑھی بہنوں نے قہقہہ لگایا اور کھانسنے لگیں۔
ہم جو چاہتے ہیں وہ محض اس لیے نہیں کر پاتے کہ "لوگ کیا کہیں گے؟"
یہ ایک نامعلوم اور بے معنی خوف ہے جو ہمارے شوق، جذبات، خواہشات کیساتھ
پروان چڑھتا ہے اور ساتھ ہی بوڑھا ہو جاتا ہے، بڑھاپے کی حالت میں جوانی کی
کچھ کر گزرنے والی انرجی پچھتاوے کا روپ دھار لیتی ہے اور پل پل ڈستی رہتی
ہے۔
سو جو من چاہے وہ کر دیکھیں، زندگی اچھے برے فیصلوں یا کڑوی میٹھی چوائسسز
کا مجموعہ ہی تو ہے. آپ کو اس اونچ نیچ سے تو ہر حال میں گزرنا ہی ہے،
لوگوں کو تو ہر حال میں کچھ کہنا ہی ہے۔۔۔ تو پھر آپ کے لیے اپنی زندگی
زیادہ ضروری ہے یا لوگوں کا کہا۔۔۔؟
فیصلہ آپ کا ہے، ابھی کا ہے، کیونکہ زندگی جیسا معجزہ صرف ایک بار ہوتا ہے
دوبارہ نہیں۔
|