علم تو نورخدا ہے جو گناہگاروں
اوربد بختوں کو نہیں دیا جا تا ۔
علم۔ علم کا مطلب کیا ہے کیا اس کا مطلب تعلیم حاصل کر نا ہے جو کہ ہم اپنے
تعلیمی اداروں میں حاصل کرتے ہیں۔یا پھر مذہبی اداروں میں جو تعلیم دی جا
تی ہے ؟ علم کا اصل مفہوم یہ ہے کہ آپ کہ اندر سے کچھ با ہر نکا لنا جیسا
کہ ہم کنویں سے پانی با ہر نکا لتے ہیں نہ کہ کنویں میں ڈالتے جبکہ آج کے
تعلیمی ادارے ہمارے اندر مختلف مو ضوعا ت مثلََا سائنس ، انجینئرنگ ، ریا
ضی ،فلسفہ ،تا ریخ ،فقہ وغیرہ وغیرہ انڈیلتے ہیں ہماری یا د داشت میں ایک
ڈیٹا سیو کرتے ہیں اور سال بعد امتحا نا ت کے ذریعے ہما ری یاد داشت چیک
کرتے ہیں کہ اس میں کتنا ڈیٹا سیو ہے اور اس کے بعد اگلے گریڈ میں تر قی دے
دی جاتی ہے با لآ خر آخری امتحان میں ڈگری دے کر ایک دفتر میں کام کرنے
والی مشین بنا دیا جاتا ہے اُوپر پیش کی گئی آیت کا کیا یہی مفہوم ہے آیت
کا پہلا حصہ علم تو نورِخدا ہے یہ نورِخداکس کو کہا گیا ہے یہ جا ننا بہت
ضروری ہے اس کائنات کی تخلیق کے تصور سے بہت پہلے جب صرف یہ نورِ خدا تھا
اس وقت اپنی پہچا ن اور نور کو سمجھنے کے لیے انسا ن کو بنا یا گیا اور ایک
ایسا معجزہ ہوا اس انسا ن کے اندر اس نور کو تسخیر کرنے کی صلاحیت ڈا ل دی
اور آج انسا ن اپنی ذات کی پہچان کرتے ہوئے اس نور تک جا پہنچا جس کا برسوں
سے متلا شی تھا درحقیقت جب چشمِ باطن ظاہر ہوئی ہے تو انسا ن کو پتا چلا
درحقیقت علم جسے نورِخداکہا گیا اس کے باطن میں اس کی اپنی ذات میں ہے جس
کی پہچان کرنا اس کے بس میں نہیں رہا صرف نورِبصیرت اور دانش مندی ہی اس سے
آشنا ہے ایک طرف وہ انسا ن جو مکمل روبوٹ ہے جنہیں ہمارے تعلیمی ادارے تیا
ر کرتے ہیں دوسرا انسا ن وہ ہے جو علم ،نورِخدا ڈھونڈتا ہے اس کے لیے کوشش
کرتا ہے اور پھر اسے پا لیتا ہے ایسا انسا ن دنیا کی اصل حقیقت سے آشنا ہو
جا تا ہے اس شخص میں ایک غیر معمولی تبدیلی آجاتی ہے آنکھوں میں انو کھی
چمک ہوتی ہے ایک فاتحا نہ چمک جیسے ہر کوئی محسوس نہیں کر سکتااس کے لیے یہ
دنیا قابلِ تسخیر ہوتی ہے اس کی بلند ہمتگی اور حوصلے کے سا منے یہ دنیا
آٹے میں نمک بھی نہیں رہتی تما م دنیا وی خواہشیں دم توڈ دیتی ہیں اور
حقیقت سامنے دکھائی دیتی ہے یہ ہے نورِخدا جو گناہگا روں اور بد بختوں کو
نہیں دیا جاتا اس نورِ خدا کو عام کرنے کے لیے اور اس کی اہمیت اپنی ذات کو
پہچاننے میں مدد دینے کے لیے مختلف اوقات میں اسی نورِ خدا کے توسط سے اسکے
نیک بندے اس دنیا میں آئے اوراسکابول بالاکیالیکن خطاکارانسان نہ سمجھ
سکاعقل وشعورسے بہرہ وریہ لاکھوں کروڑوں انسان نہ سمجھ سکے اصل میں ہمیں
کیاسمجھایاجارہاہے اورسکھایا جارہا ہے عیسیؑ نے جب انسان کو اپنے اندر
جھانکنے کا اور خودی کی پہچان کرنے کا کہا تو انہیں سولی پر سجا دیا چونکہ
انسان برسوں سے ایک جہالت کے خول میں تھا وہ اپنے اندر سے باہر جھانکنا کا
طلب گار نہ تھا اسے ان باتوں سے سخت کو فت ہوئی اس کے بعد آنحضرتﷺ تشریف
لائے آپ نے بھی وہی تعلیمات ایک نئے انداز میں سکھائی اسی نور کی اہمیت کو
اجاگرکیا جس کا راستہ انسانیت سے گزرتا ہے لیکن ہم انسانیت تو نہ سمجھ سکے
ہاں مسلمانیت ہم نے سیکھ لی جب کہ مسلما نیت تو انہوں نے انسا نیت کو
سمجھنے کے لیے ایک مشق کے طور پر دی حقیقت میں جب انسانیت سمجھ میں آتی ہے
تو پھر وہ نورِخدامنکشف ہوتا ہے جس سے گناہگار بہت دور ہیں آپ اپنی چشمِ
باطن سے دیکھیں آپ کو لاکھوں لوگ نظر آئیں گے بڑے بڑ ے ا فسربڑے دفتروں
کوچلانے والے تعلیم یافتہ لوگ جو بہت اچھی مشینیں ہیں جن کے پاس اعلٰی
تعلیم ہے مگر وہ اپنی ذات اپنی پہچان میں زیرو ہیں جن کے پاس تعلیم تو ہے
مگر علم اور شعور نہیں ایک کمپیٹیشن کا ماحول نظر آئے گا جس میں ایک انسان
باقی سب کو ہرانے کی دوڑ میں مصروف ہے اس سے کیا حاصل ہو گا کیا آپ دوسروں
کو ہرا کر ان کا استحصال کر کے ایک بڑے آدمی بن جائیں گے نہیں اور بھی
چھوٹے ہو جائیں گے ایسی تعلیم آپکو کیا بناتی ہے ایک بڑا انسان جو ساری
انسانیت کو ہرا کر ان کا استحصال کر کے سب سے بڑا بننا چاہتا یا ایک چھوٹا
انسان جو دوسروں سے بڑا بننا چاہتا ہے یہ مقابلہ بازی کیوں شروع ہو تی ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے انسان اپنا اصل مقصد بھول کر ایک غیر ضروری کام کی طرف
کیوں دوڑتاہے یہ کام بچپن سے شروع ہو جاتا ہے اور سکول آ کر اس کو ترویج
ملتی ہے وہ پہلے کلاس میں مقابلے بازی کی فضابناتا ہے اورپھرپورے سکول میں
ایسا کرنے سے اسے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بڑھتے
بڑھتے اسکی ساری زندگی پر حاوی ہوجاتاکیا ایسے ا نسان نورِخدا کے قابل
ہوسکتے ہیں جن کی ساری زندگی دوسروں سے بر تر بننے میں گزر گئی ہو جبکہ
تمام انسان برابرہیں برتری کا کوئی تصورہے تو وہ انسانیت کی راہ سے گزر
کرعلم اور نورِخدا تک رسائی ہے ایسے ہی لوگوں کو گناہ گار اور بد بخت کہا
گیاہے آخر یہ نورِبصیرت یہ دانشمندی جیسے علم کہا گیا ہے یہ کہاں سے حاصل
ہو سکتا ہے ہمارے تعلیمی ادارے تو اس سے قطعاََنا آشنا ہیں تو پھر یہ کیسے
ممکن ہے اس کا ایک راستہ ابتدائی راستہ ہے اگر آپ اس میں کامیاب ہو جاتے
ہیں تو پھر بقیہ راستے خودبخودعبور ہو جاتے ہیں پہلا راستہ ہے اپنی اَنا کا
راستہ جب آپ اپنی اَنا اپنی خودداری کو چھوڑکر ایک عام انسان بنتے ہیں تو
پھر ہی آپ خاص انسان بنتے ہیں یہ بہت مشکل ہے مگر قدرے آسان ہے دوسری طرف
مذہبی ادارے ہیں جو صرف اور صرف مذہب کی تعلیم دیتے ہیں جب ایک بچہ کسی
مذہبی ادارے میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کا مستقبل کیا ہوتا ہے وہ صرف
ایک مبلغ ہوتا ہے جو مذہب کی تبلیغ کرکے اپنا روزگار چلاتا ہے مبلغ ہونا
کچھ غلط نہیں لیکن صرف مبلغ ہونا غلط ہے آپکو اس وقت ہزاراوں ایسے مبلغ نظر
آئیں گے جو تبلیغ کے اصل مفہوم سے بھی واقف نہیں لیکن وہ اسلام کا پر
چارکرتے وعظ دیتے ہوئے اسلامی محفلوں میں نظر آئیں گے کیا ایسے مبلغ ہمیں
علم سے شناسا کرا سکتے ہیں آج ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک کشمکش سی
صورتحال ہے ایک ریس لگی ہوئی ہے اور سبھی لنگڑے لولے گھوڑوں کی مانند دوڑ
رہے ہیں لیکن علم اور شعور کی اصل اہمیت کہیں نظر نہیں آتی انسان کو اشرف
المخلوقات اسی علم کی بدو لت کہا گیا ہے استاد کو اتنا بلند مقام کیوں دیا
گیا تا کہ وہ دوسروں کو ان کے اصل مقام سے آشنا کرا سکے لیکن ہمارے ہاں
استاد تو خود اپنے ہی مقام سے آشنا نہیں ایک بلندسوچ دانشمندانہ تخلیقیت کی
ضرورت ہے جو پہلے ٹیچرز کواستاد بنائے اور پھر استاد اپنے طلباءکو حقیقی
علم سکھا کر انہیں باشعور انسان بنائے۔
سُن سکے کبھی تو جو پیغامِ غیب
ہُنر میں بدل جائیں گے تیرے عیبِ |