ہم اپنے مفادات میں کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں چاہے کسی کی
جان ہی کیوں نہ لینی پڑے مگرتشددمیں زیادہ ترمخالفین سیاسی ووٹرز ہی آتے
ہیں یاپھرسیاستدان اپنے مفاد کی خاطرلوگوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہیں اگرشہباز
شریف کا ماڈل ٹاؤن کیس یادکریں توکئی لوگوں پرتشددیاد آتا ہے اورکئی لوگوں
کی لاشیں نظرآتی ہیں ۔سیاست کی بھینٹ لوگ آج نہیں چڑھ رہے قرون وسطی
بالخصوص صلیبی جنگوں اورناپسندیدہ مذہبی فرقوں کے خلاف بدترین انتقامی
کاروائیوں کے دورمیں بدترین دیوانگی حدتک پہنچے ہوئے مذہبی جوش وخروش نے اس
قبیح طرزعمل کوسندعطاکی اگراس کا بھی بغورتجزیہ کیا جائے تواس میں بھی اپنے
اقتدارکاغلبہ برقراررکھنے کے بہانوں کومعقولیت اورمذہبی تقدس کا لبادہ
پہنانے کی کوشش کے سواکچھ بھی نہیں آج کے دورمیں بھی مذہبی اورسیاسی
اختلافات کی آڑ میں اپنے اقتدارکیلئے تشددہونا عام سی بات ہے ۔قدرتی
اورذرخیززمین پرقابض ہونے کالالچ بھی خونریزجنگوں کامحرک رہا جس کا لامحالہ
نتیجہ تشددکی بدترین صورت میں نکلامگرتاریخ گواہ ہے کہ اس لالچ کی بھینٹ
کئی افرادچڑھ گئے جن میں مفاد صرف چندلوگوں کاتھاجنہوں نے اپنی طاقت
اوراقتدارکی حوس میں لاکھوں لوگوں کو ایندھن کی بھٹی میں دھکیل دیااقوام
متحدہ کاادارہ 1945سے تشددکے خاتمہ کیلئے جدوجہدکررہاہے انسانی حقوق کے
عالمی منشورکے دفعہ 5بیان کیاگیا ہے کہ کسی بھی انسان کوتشددظالمانہ یاہتک
آمیزسلوک کانشانہ نہیں بنایاجائے گایادرہے کوئی بھی ایسااقدام جس کے ذریعے
کسی بھی انسان اس کے بارے میں یا کسی تیسرے فردکے بارے میں معلومات
یااقبالی بیان حاصل کرنے کی غرض سے اسے دانستہ طورپراسے جسمانی،ذہنی تکلیف
یااذیت پہنچائی جائے کسی ایسے اقدام کیلے سزادیناجواس سے یاکسی تیسرے شخص
سے سرزدہواہویااس کے سرزدکیے جانے کے یاکسی تیسرے شخص کوڈرانے دھمکانے میں
انتقامی کاروائیوں کانشانہ بنایایاپھرکوئی ایسی تکلیف دی یااذیت دی کے
معاملے میں امتیازی سلوک روارکھنایاسرکاری اہل کاروں یادیگرسرکاری حکام
پریاان کی رضامندی سے ایسی کاروائیاں کرنااس تعریف میں وہ سزائیں اورتکالیف
شامل نہیں جوقانونی تعزیرات پرعمل کے نتیجے میں پہنچ سکتی ہے۔یہاں پرمیں
ضلع مظفرگڑھ کی تنظیم ایمز آرگنائزیشن کوخراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا
کیونکہ اس ادارہ نے ہمیشہ مطفرگڑھ میں ہمیشہ عورتوں پرتشددکے خلاف نہ صرف
آواز اٹھائی بلکہ کئی لوگوں کوراہ راست پربھی لے آئے اس ادارہ کی نظرحبیب
جالب کے کچھ اشعار:
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی ،
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی،
مخلوق خداجب کسی مشکل میں ہوپھنسی ،
سجدے میں پڑے رہناعبادت نہیں ہوتی
ہرشخص سرپہ کفن باندھ کے نکلے ، حق کیلئے لڑنا توبغاوت نہیں ہوتی(حبیب
جالب)80کی دہائی میں اقوام متحدہ کی اسمبلی نے اپنی قرارداد 39/46کے تحت
تشدداوردیگرظالمانہ غیرانسانی یاہتک آمیزسلوک یاسزاؤں کے خلاف قراردادپیش
کی پھر26 جون 1987سے یہ قانون نافذالعمل کرکے تشددکوسنگین جرم قراردیتے
ہوئے رکن ریاستوں کوپابندبناتا ہے کہ وہ مرتکب افرادکوقانون کے کٹہرے میں
لاکھڑکریں اورانہیں سزائیں دیں یہ انسانی تشددکا اہم اقدام تھا کہ یہ
تشددغیرانسانی اورذلت آمیزسلوک یاسزاؤں کی ہرایک صورت مطلق
طورپراوردنیابھرمیں غیرقانونی ہے آخرکاردسمبر1997میں اقوام متحدہ نے 26جون
کے اس تاریخی دن کوتشددکے شکارافراد کی حمایت کے عالمی دن کے طورپرمنانے کی
منظوری دی تشددکے خاتمے کاعالمی دن انسانی حقوق کے 6بڑے معاہدات میں سب سے
کم توثیق کردہ معادہ ہے اپنے قارائین کوبتاتاچلوں 2002تک صرف 128ممالک نے
براعظم ایشیاء سے اس معاہدہ پردستخط نہ کرنے والوں میں لاؤس،ملائشیا،
برما،برونائی،بھوٹان،شمالی کوریا،سنگاپور،تھائی لینڈ،ویت اورپاکستان شامل
تھے۔موجودہ دورمیں بھی اقتدارکافقرہ اکثرسننے کوملتا ہے کیونکہ جدیداورمہذب
دورمیں بھی حکمران اپنی عوام پرغاصبانہ تصرف کیلئے تشددکی بدترین صورتوں
کاسہارالے رہے ہیں تشددجیسی برائی کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش میں اختیارات
اوراقتدارکی ہوس سرفہرست نظرآتے ہیں دورجدیدمیں نسل تطہیراورنسل کشی جیسی
اصلاحات سے بھی آشناہوئے ہیں یہ بہیمانہ کاروائیاں بجائے خودتشددکے بنیادی
محرک نہیں بلکہ اقتدارکی ہوس میں بڑھی مفروضہ دوست اوردشمن کھڑے کرکے اپنے
مقاصدتک رسائی حاصل کرنا ہے چنانچہ تشددکے پیچھے اقتدارپرغلبہ یعنی نفسیاتی
محرکات دوسروں کے وسائل پرقابض ہونا درندگی پرمبنی اقتدار کے بھوکوں پرجن
میں چندمٹھی بھراہل لوگوں کے حق پرقبضہ جمانا اقام متحدہ کی غیرفعال
تنظیموں کے اعدادشمارکے مطابق دنیا کے 23ممالک عوام پرغاصبانہ تصرف کیلئے
تشددکا بدترین سہارالے رہے ہیں جس میں ترقی یافتہ صنعتی ممالک بھی شامل ہیں
انسانوں کوبچانے اورکرہ ارض کوتشددسے پاک کرنے کیلئے عالمی برادری کو فوری
اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہنگامی بنیادوں پرعمل کرنے کی بھی ضرورت ہے
معاشرے کومہذب بنانے کی یہی ایک صورت ہے اس کرہ ارض پرزندگی کے
معیارکوبہتربنانے کیلئے عالمی برادری کوبلاامتیازقومیت ونسل کوآوازاٹھانے
کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کرناہوں گے ۔
|