ہمیں ورثے میں ملی غلامانہ سوچوں میں سے ایک یہ سوچ بھی ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں کوئی ذہین فطین بندہ اول تو پیدا نہیں ہو سکتا اور اگر غلطی سے پیدا ہو بھی جائے تو اسکی ذہنی صلاحیت کسی بھی مغربی ملک کے بیوقوف ترین گورے کی لیاقت سے کئی درجہ کم ہی رہیگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ پورے تعلیمی کیرئیر میں سکینڈ ڈویژن سے آگے نہ بڑھ پانے والا ایک عام سا وکیل اگر چند ہفتوں کی بار ایٹ لاء نامی ٹریننگ مغرب سے مکمل کر لے،یا کوئی اوسط قابلیت والا بندہ کسی بھی طرح بیرون ملک کی شہریت حاصل کرلے یا وہاں سے ایک آدھ کورس کرکہ آجائے تو اسکا شمار بھی لائق فائق حضرات میں ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قابلیت کا معیار سمجھے جانیوالے اکلوتے امتحان سی ایس ایس میں بھی یہ غلامانہ سوچ بری طرح پنپ چکی ہے۔ یہاں بھی مغرب پلٹ نوجوانوں کے انتخاب کو سہل بنانےکیلئے انگریزی زبان کو کلیدی کردار عطاء کیا جا چکا ہے۔ اور اسکا ثبوت پچھلے پانچ سی ایس ایس امتحانات کے نتائج دیکھ کر بخوبی مل سکتا ہے۔ حتی کہ سی ایس ایس پاس لوگوں کی ٹریننگ کے دوران سول سروسز اکیڈمی میں بھی مغرب پلٹ نوجوانوں کو برہمن کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور یوں بڑے سے بڑا بیوروکریٹ دوران ٹریننگ ہی یہ سمجھ جاتا ہے کہ اول کامیابی مغرب کی شہریت ہی ہے اور پھر ساری عمر وہ اسی کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہی مشق آرمڈ فورسز بیوروکریسی میں بھی جاری رہتی ہے۔
|