استخارہ کے معنی ہیں خیر طلب
کرنا، اور شریعت کی زبان میں اس سے خاص دعا مراد ہے۔ جب کسی معاملے کے مفید
یا مضر ہونے میں تردد ہو اور کوئی ایک فیصلہ انسان کے لئے مشکل ہو جائے تو
اس مشکل اور تردد کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ
دعاءکرناتا کہ اس معاملے میںتردد دور ہو جائے اور مفید پہلو متعین ہو جائے،
یہ دعاء”استخارہ“ کہلاتی ہے اور ” نماز استخارہ“ وہ نفل نماز ہے جو اس
دعاءسے پہلے پڑھی جاتی ہے۔
استخارہ در حقیقت مشورے کی ایک ترقی یافتہ اور اعلیٰ ترین شکل ہے۔ دونوں
میں فرق یہ ہے کہ مشورہ اپنے ہم جنس افراد سے کیاجاتا ہے تاکہ ان کے علم و
تجربہ سے فائدہ اٹھا کر مفید سے مفید تر قدم اٹھایا جائے، جبکہ استخارہ میں
اللہ تعالیٰ سے عرض کیا جاتاہے کہ اے اللہ! ہمارے اس معاملے کے مفید اور
مضر تمام پہلوﺅں سے آپ بخوبی واقف ہیں، آپ کے علم میں جو پہلو ہمارے لئے ،مفید
اور بہتر ہو اسے ہمارے سامنے روشن کرکے ، ہمارے دلوں کو اس کی طرف مائل و
مطمئن کردیجئے۔
اسلامی تعلیمات جو تمام کی تمام انسان کی دنیا وآخرت اور معاش و معاد کی
درستی وصلاح کی کفیل ہیں، استخارہ بھی انہیں میں سے ایک زریں اصول ہے،
جوتردداور مشکلات میں انسان کی درست رہنمائی اور سہولت کیلئے اللہ تعالیٰ
نے عطاءفرمایا ہے۔ در اصل انسان کتنا ہی عقلمند، زیرک، ودانا اور تجربہ کار
و ہوش یار ہو، بہرحال اس کا علم حد درجہ ناقص، معلومات انتہائی محدود،
تجربات کا دائرہ تنگ اور وہ بھی غیر یقینی، فہم میں نہایت کمزوری اور بے
انتہاءتفاوت اور سب سے بڑھ کر اس کی بشری در ماندگیاں اور عیوب و نقائص
ایسا داغ ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ ہیں، اس لئے انسان کا اپنی آراءو افعال
میں غلطی کر جانا اور مفید کو مضر یا مضر کو مفید سمجھ لینا ایک ایسی
مشاہداتی، تجرباتی اور واقعاتی حقیقت ہے جس کا انکار نا ممکن ہے۔ اس کے بر
خلاف اللہ تعالیٰ کا وسیع و محیط علم اور بے مثال قدرت و بصیرت ایسی کامل و
مکمل اور ہر شئی کو شامل و محیط ہیں کہ کائنات کاذرہ ذرہ، ماضی و مستقبل سب
اس کے احاطہ علم میں ہیں اور زیرِ قدرت ہیں اور وہ ہر چیز کے ہر پہلو سے
بخوبی وبکمال واقفیت رکھتا ہے۔ اب ایسی علیم وخبیر اور قادر و بصیر ذات
عالی سے اگر کسی معاملے میں رہنمائی لی جائے اور خیر طلب کی جائے تو کیا اس
سے بڑھ کر کسی اور کی رہنمائی ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔
استخارہ انسان کی عملی زندگی(practicle life) کی ایک اہم ضرورت اور لازمی
جزو ہے، کیوں کہ انسانی زندگی صبح و شام ایسے نو بنو حادثات اور تغیر پذیر
حالات سے دو چار ہوتی ہے جہاں وہ لا چار ہوجاتا ہے کہ کسی نہایت باخبر ذات
سے رہنمائی لے۔ مولانا عبدا لماجد دریابادی نے ان حادثات و تغیرات کا بڑا
صاف نقشہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”ہر فردِ بشر کو اپنی اپنی حیثیت و مرتبہ
کے لحاظ سے دنیا کی کیسی کیسی کشمکش سے دوچار ہونا پڑتاہے۔ اختیار و اضطرار
دونوں کی کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ رنج وراحت، غم و مسرت، ضعف
وقوت، محبت و عداوت، تنگ دستی و فراغت، افسردگی و نشاط، بخل وجود، حلم و
غضب، شقاوت و سعادت کی کیسی کیسی وادیوں میں سے ہو کر گزرنا ہوتا ہے۔ اپنے
ضمیر سے کبھی دباﺅ، کبھی مروت کے ما تحت کیسے کیسے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔
شاعر ہو کہ ادیب، مورخ ہو کہ مفسر، صوفی ہو کہ فقیہ، زندگی کے اس اتار
چڑھاﺅ سے کسی کو بھی مفرّ نہیں“۔ ان ہوش ربا، دلخراش اور مدحوش کن حالات سے
سابقہ پڑنے پر جو شخص، اللہ علیم و خبیر سے رہنمائی کا سوال کرلے اور سوال
کا ڈھنگ بھی وہ ہو جو اس کے عظیم و جلیل پیغمبر محمدﷺ کا سکھلایا ہوا ہو تو
بتلایا جائے کیا ایسا شخص کبھی ندامت و پشیمانی اٹھائے گا؟ یقین نہ آئے تو
صادق و امین آمنہ کے در یتیمﷺ کا یہ فرمان سنیے!
ترجمہ: جس نے استخارہ کیا وہ ناکامی سے دور رہا، جس نے مشورہ کیا وہ ندامت
سے محفوظ رہا اور جس نے(معاشرت و معیشت میں) متوسط راہ اپنائی وہ محتاجی
اور فقر سے بچ گیا ۔(کنز)
سردست اس موضوع پر چندمزیداحا دیث کا ترجمہ ملا حظہ فرمالیں تا کہ بظاہر
معمولی نظر آنیوالے عمل کی اصل حقیقت و اہمیت اورقدرومنزلت سے آگاہی
ہوجائے۔
(۱) اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنااور اس کے حکم پر راضی رہنا انسان کی نیک
بختی اور بڑی سعا دت ہے جبکہ استخارہ نہ کرنا اور اللہ کے حکم پر ناراض
ہونا بدبختی اور بڑی شفاوت ہے (ترمذی )
(۲)جب کسی کا م کا ارادہ کرو تو سات مرتبہ اپنے رب سے اس کے بارے میں
استخارہ کرو پھر دیکھو کہ سب سے پہلے دل میں کیا خیا ل آتا ہے جو خیال پہلے
آئے اسی میں خیر ہے (عمل الیوم واللیلة )
(۳)حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺہمیں استخارہ کی دعا اس طرح تعلیم فرماتے
تھے جس طرح قرآن کی سورتیں تعلیم فرماتے تھے اور تمام معاملات میں استخارہ
کرنے کی تا کید فرماتے تھے (احیاءالعلوم)
بعض حکماءکا مقولہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالٰی چار چیزوں کی توفیق
عطاءفرمادیں وہ چار چیزوں سے محروم نہ رہے گا (۱)جس کو شکر کی توفیق عطاہو
وہ نعمتوں کی بڑھو تری سے محروم نہ ہوگا(۲)جس کو توبہ کی توفیق مل گئی وہ
قبولیت سے محروم نہ ہو گا (۳) جس کو استخارہ کی طرف متوجہ کر دیا جائے وہ
درست رائے اور مفید نتیجہ سے محروم نہ کیا جائے گا (۴)جس کو مشورہ کرنے کی
عا دت ہو وہ درست مشورہ سمجھنے میں دھوکہ نہ کھائے گا ۔
یہا ں ایک اہم سوال یہ ہے کہ استخارہ کن کاموں میں کیا جاتا ہے؟آیا اس بارے
میں کوئی تخصیص ہے یا ہر کا م میں استخا رہ کیا جاسکتا ہے اس کا مختصر
اورآسا ن سا جواب یہ ہے کہ استخارہ صرف ان کاموں میں کیا جاتا ہے جن
میںمفید یا مضر دونوں پہلوؤں کا احتمال ہو ،کیوں کہ ایسے موقع پر انسان
متردّد اور شش و پنج میں پڑجا تا ہے ،اور اس تردد کو ختم کرنے اور مفید
پہلو جاننے کیلیے ہی استخا رہ کا طریقہ بتا یا گیا ہے ۔مثلاً معا شی
ضروریات کیلئے تجارت وملازمت یا زراعت و مزدوری وغیرہ امو ر میں تردد ہو کہ
آیا تجارت کی جائے یاملازمت؟ اسی طرح یہ تردد کہ تجارت اپنے شہر میں کی
جائے یا کسی دوسرے شہر کا سفر کیا جائے ؟ وغیرہ۔ الغرض تما م وہ معاملات
خواہ ان کا تعلق معا شرے سے ہو، معا ملات سے ہو یا معیشت سے ہو جن کو اسلام
نے جائزکہاہو جب ان کے مختلف پہلوﺅں میں تردد پید ا ہو جائے تو اس تردد کو
دور کرنے کیلئے استخارہ مسنون اور مبارک وپسند یدہ عمل ہے ۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں شریعت نے فرض و وا جب یا حرام قرار دیا ہے
مثلاً نما ز ،روزہ ، زکوة،جہاد اور حج عبا دات میں ،صداقت ،امانت ، دیانت
،اخلاص وغیرہ اخلاق میں فر ض اور مطلوب و پسند یدہ ہیں۔ ان کے کرنے یا نہ
کرنے میں استخا رہ نہیں ہوتا کیو ں کہ ان کا کرنا ہی مطلوب ہے اور اسی کا
حکم ہے۔ اسی طرح جو چیزیں حرا م اور گنا ہ ہیں مثلا نا حق قتل کرنا ،زنا
ءکا ری ،شراب نوشی، ڈکیٹی وغیرہ جرائم میں ،اور سود خوری ،ناجائز ملاوٹ ،نا
پ تول میں کمی بیشی ،نا جائز ذخیرہ اندوزی خرید وفروخت میں حرا م اور گنا ہ
ہیں تو ان میں استخا رہ نہیں ہو تا ۔یا د رہے کہ اوپر جو چیزیں ذکر کی
گئیںجن میں استخا رہ نہیں ہو سکتا ،اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے کرنے یا نہ
کرنے میں شریعت نے جو پہلو متعین کر دیا اس پر عمل ضروری ہے اور خا ص اسی
پہلو میں استخا رہ نہیں ہو سکتا ،کسی اور حیثیت سے استخار ہ ممکن ہو سکتا
ہے مثلاً جس پر حج فرض ہو اس کیلئے اسکی ادئیگی لازمی ہے اب یہ استخا رہ
نہیں ہو سکتا کہ حج کروں یا نہ کروں کیو ں کہ کرنا ضروری ہو چکا ہے البتہ
اس میں استخارہ ہوسکتا ہے کہ رفیق سفر کس کو بنا یا جائے اور راستہ کون سا
اختیا ر کیا جا ئے ؟وغیرہ۔
آج کل دینی تعلیما ت سے اجنبیت اور جہالت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بہت سے
لوگوں نے مختلف ایسے دینی امور جو دنیا وی معاملات میں براہ راست مفید دخل
رکھتے ہیں۔انہیں اپنا پروفیشنل کاروبار بنا کرنا واقف لوگوں کے دین و ایمان
میں خلل اور مال پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔انھیں میں ایک کاروبار” استخارہ
کروائیے“کے عنوان سے چل نکلا ہے۔حالانکہ استخارہ کروانے کی چیز نہیں۔ بلکہ
خود کرنے کی چیز ہے۔نبی کریمﷺ نے خود کرنے کی ترغیب دی ہے۔یوں بھی یہ عمل
کچھ مشکل نہیں ہے۔جسے کوئی مسلمان نہ کر سکتا ہو۔البتہ عمومی دینی غفلت کی
وجہ سے مشکل نظرآئے تو الگ بات ہے۔لیکن اس میں قصور وکوتاہی عمل کرنے والوں
کی ہے۔خود عمل سے کوئی پیچیدگی وابستہ نہیں ہے۔اس لیے ہر اہم معاملے میں
استخارہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔اور پیشہ ور لوگوںسے اجتناب کرنا
چاہیے۔البتہ اگر کبھی کبھار کسی زیادہ ہی اہم معاملے میں کسی نیک سیرت بزرگ
سے استخارہ کی درخواست کر دی جائے۔تو اس میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔
اب ہم استخارہ کا مسنون اور آسان طریقہ ذکر کرتے ہیں جو خاتم المرسلین رحمة
للعٰالمین ﷺ کا تجویز کردہ ہے۔اور یہ بات ہر مسلمان جانتااور مانتا ہے۔کہ
آپﷺکے بتائے ہوئے سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔حضرت جابرؓ فرماتے
ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جب کوئی شخص کسی اہم کام کا ارادہ کرے۔تو اس کو چاہیے کہ پہلے دو رکعت نماز
نفل پڑھے۔پھر درج ذیل دعا کرے(بہتر یہ ہے کہ دعا کے اول و آخر سات سات
مرتبہ درود شریف پڑھ لے)دعا یہ ہے:اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَستَخِیرُکَ
بِعِلمِکَ وَ اَستَقدِرُکَ بِقُدرَتِکَ وَاَسئَلُکَ مِن فَضلِکَ العَظِیمِ
فَاِنَّکَ تَقدِرُوَلَا اَقدِرُ وَتَعلَمُ وَلَا اَعلَمُ وَاَنتَ عَلَّا مُ
الغُیُوبِ۔اَللّٰہُمَّ اِن کُنتَ تَعلَمُ اَنَّ ھٰذا الاَمرَ(اس جگہ اپنے
مقصد کا نام لے یا دل میں خیال کر لے)خَیرلِّی فِی دِینِی وَمَعَاشِی
وَعَاقِبَةِ اَمرِی فَاقدِرہُ لِی وَیَسِّرہُ لِی ثُمَّ بَارِک لِی فِیہِ
وَاِن کُنتَ تَعلَمُ اَنَّ ھٰذا الاَمرَ(اس جگہ دوبارہ اپنے مقصد کو ذکر
کرے یا دل میں خیال کر لے)شَرّلِّی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ
اَمرِی فَاصرِفہُ عَنِّی وَ اصرِفنِی عَنہُ وَاقدِر لِیَ الخَیرَ حیثُ
کَانَ ثُمَّ اَرضِنِی بِہ۔
اسی طریقے پر سات مرتبہ استخارہ کرنے کے بعد سب سے اول جس جانب دل کا میلان
اور اطمینان دیکھے اس پر بلا تامل عمل کر لے۔ان شاءاللہ اسی میں خیر ہو
گی۔جیسا کہ اوپرحدیث کا بیان گزر چکا ہے۔
بسا اوقات انسان کو کوئی ایسا امر پیش آتا ہے۔جس میں زیادہ تاخیر کی کوئی
گنجائش نہیں ہوتی۔بلکہ جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔تو اس
صورت میں بھی اسلام نے راہ بند نہیں کی ،ایک آسان اور مختصر طریقہ بتا دیا
ہے۔جس پر عمل سے بہت سی ممکنہ پریشانیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔وہ عمل یہ ہے
کہ اس عجلت والے موقع پر کام شروع کرنے سے پہلے گیارہ مرتبہ درج ذیل دعا
پڑھے:
اَللّٰہُمَّ خِرلِی وَاختَرلِی
ترجمہ۔یا اللہ میرے لیے خیر کر اور جو صورت بہتر ہو اس کو ظاہر فرما۔
اس دعاءکے بعد جس طرف قلب کا میلان و اطمینان دیکھے ،عمل کرے،انشاءاللہ وہی
بہتر ہو گا۔
استخارہ سے متعلق جو باتیں ضروری معلوم ہوئیں وہ عرض کر دی گئی ہیں۔اللہ
تعالیٰ تمام اسلامی تعلیمات پر ہمیں شرح صدر نصیب فرمائے۔یہ دین اسلام بہت
عظیم نعمت ہے جس سے ہمیںنوازدیا گیا،اس کا ہرہرحکم بے شمارحکمتوں اور حسن و
جمال کا مرقع ہے۔حق بات یہ ہے کہ اگر اسلامی تعلیمات پر پورے اخلاص اور سچے
جذبے سے عمل کیا جائے تو ان گنت پریشانیاں ٹل جائیں۔آج دنیوی معاملا ت
اورکاروباروںمیں طرح طرح کی ظاہری تدابیر بروئے کار لائی جاتی ہیں،مگرچند
لمحات اس سنت حسنہ کے لیئے نہیں نکالے جاتے اس لیئے وہ ظاہری تدبیریں اُلٹ
پڑ جاتی ہیں۔بقول کسے:
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضدتھی، تو اگر کسی قابل ہوتا |