اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا
فرمایا اور اس کی نشو و نما کے لئے مختلف حلال و طیب رزق کا اہتمام بھی
فرمادیا ۔یہ رزق ہمیں اناج اور پھل کے ذریعے بھی میسر آیا اور مختلف
جانوروں اور پرندوں کے ذریعے بھی ملا ۔لیکن اُن کو کھانے کے طریقے مختلف
النوع غذاﺅں میں استعمال کے طریقے اور اُن غذاﺅں کی تاثیر کے بارے ارشادات
ہمیں دربار رسالت ﷺ پر حاضری سے ملے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب حضرت
محمد مصطفےٰ ﷺ کی عادت مبارک یہ تھی کہ جس قسم کا کھانا سامنے آتا اسے
تناول فرما لیتے اور نہ ہی کسی خاص قسم کے کھانے کے لئے اہتمام فرماتے ۔حضرت
ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور رسالت مآب ﷺ نے کبھی کسی کھانے
میں عیب نہیں نکالا اگر خواہش ہوتی توتناول فرمالیتے ۔اگر نا پسند سمجھتے
تو چھوڑ دیتے ۔ (مسلم)
روٹی:حضور ﷺ نے اکثر جو کی روٹی تناول فرمائی اور کبھی کبھی گندم کی بھی ،مگر
کبھی بھی میدہ کی روٹی تناول نہیں فرمائی ۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے
دریافت کیا کہ کیا گیا کہ کبھی حضور نبی اکرم ﷺ نے میدہ کی روٹی تناول
فرمائی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اخیر عمر تک آپ ﷺ کے حضور کبھی میدہ
نہیں پیش کیا گیا ۔پھر سائل نے پوچھا کہ اس زمانہ میں چھانیناں تھیں ؟ حضرت
سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں سائل نے پوچھا کہ پھر جو کی روٹی کیسے
پکاتے تھے؟انہوں نے جواب دیا کہ جَو کے آٹے میں پھونک مارلیا کرتے تھے جو (موٹے
موٹے ) تنکے ہوتے اڑجاتے ۔باقی گوندھ کر پکا لیتے تھے ۔(بخاری شریف)
حضرت یوسف بن عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور
عالم حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے جَو کی روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس
پر کھجور رکھی اور فرمایا :یہ اس کا سالن ہے اور تناول فرمالیا۔(ابو داﺅد)
گوشت:1۔حضور نبی کریم ﷺ کو گوشت بہت پسند تھا ۔آپ ﷺ نے گوشت کھانوں کا
سردار فرمایا ۔حضور اکرم ﷺ نے شور بے والا اور بھنا ہوا گوشت شوق سے تناول
فرمایا گوشت کھانے کے بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔حضرت عبد اللہ
بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں
بیٹھ کر بھنا گوشت کھایا ہے ۔(شمائل شریف)حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں
کہ ایک باررسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک عورت نے دو چپاتیاں اور تھوڑا
سا پکا ہوا گوشت ہدیةً پیش کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پیالے میں رکھ
کر کسی چیز سے ڈھانپ دیا اور تاجدار عرب و عجم حضور اکرم ﷺ کے حضور پیغام
بھیجا ۔حضور ﷺ تشریف لائے تو حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ عنہا نے وہ پیالہ
اٹھا کر دیکھا تو وہ گوشت اور روٹی سے لبالب بھرا تھا ۔یہ دیکھ کر حضرت
سیدة النساءرضی اللہ عنہا حیران رہ گئیں اور سمجھ گئیں کہ یہ اللہ تعالیٰ
کی طرف سے برکت ہے ۔حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا :ھو من عند اللّٰہ ان
اللّٰہ یرزق من یشآءبغیر حساب۔”یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے بے شک اللہ
تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :پیاری بیٹی ! اللہ تعالیٰ نے تجھے حضرت مریم علیہا
السلام کے مشابہ بنایا ہے ۔ان کی بھی یہی کیفیت تھی کہ جب کوئی ان سے
پوچھتا کہ یہ شے کہاں سے آئی ؟ تو وہ یہی جواب دیتیں ۔پھر آپ ﷺ ،حضرت علی
المرتضیٰ ،حضرت فاطمة الزہرہ ،حضرت امام حسن ،حضرت امام حسین اور تمام
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے وہ گوشت اور روٹی سیر ہو کر تناول فرمائی
۔مگر پیالہ میں گوشت (اور روٹی) بدستور موجود رہا ۔پھر سیدہ فاطمة الزہرہ
رضی اللہ عنہا نے وہ کھاناہمسایوں میں تقسیم فرما دیا ۔اللہ تعالیٰ نے اس
کھانے میں خیر کثیر اور برکت عطا فرما دی ۔(خصائص کبریٰ)
2۔حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس
میں کہیں سے (بکر ی کا) گوشت آیا ۔اس میں سے دست کا گوشت خدمت اقدس میں پیش
کیا گیا ۔کیونکہ دست کا گوشت آپ ﷺ کو پسند بھی تھا اور آپ ﷺ نے اس کو
دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا ۔(شمائل ترمذی)
3۔حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لئے ہانڈی
کی چونکہ دست کا گوشت حضور نبی کریم ﷺ کو زیادہ پسند تھا ۔اس لئے میں نے
ایک دستی پیش کی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے تناول فرمایا ۔پھر دوسری طلب فرمائی
۔میں نے خدمت اقدس میں پیش کر دی ۔پھر آقائے نامدار ﷺ نے اور دست طلب
فرمایا تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ بکری کے دو ہی بازو ہوتے ہیں ۔تو
تاجدار عرب و عجم سید عالم ﷺ فرمانے لگے :” مجھے قسم ہے اس ذات مقدسہ کی جس
کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔اگر تو چپ رہتا ،تو ہنڈیا سے جب تک میں
مانگتا رہتا ۔بونگی ہی نکلتی رہتیں ۔“(ترمذی)
4۔حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
:” بہترین گوشت پیٹھ کا ہے ۔“(ترمذی شریف)
مرغی کا گوشت:حضور ﷺ نے مرغی کا گوشت بھی کھایا ہے ۔حضرت ابو موسیٰ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ مرغی کا گوشت
تناول فرما رہے تھے ۔(مسلم و بخاری)
مچھلی :حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ”جیس خبط“ کا جہاد
کیا ہم پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ امیر مقرر کئے گئے ۔ہم کو سخت بھوک لگی
ہوئی تھی۔ سمندر نے ایک مچھلی (کنارے پر)پھینکی ۔ہم نے ایسی مچھلی کبھی نہ
دیکھی تھی ۔اس کو ”عنبر“ کہا جاتا تھا ۔ہم اسے نصف ماہ تک کھاتے رہے ۔(ایک
دن) حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اُس مچھلی کی ایک ہڈی پکڑی (اور اسے
زمین پر رکھا ،وہ ہڈی اتنی بڑی تھی کہ) اُونٹ سوار اس کے نیچے سے گزر گیا
۔جب ہم واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ سے ہم نے اس واقعے کو عرض کیا ،تو سرور دو
عالم ﷺ نے فرمایا :کھاﺅ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے ۔اگر
تمہارے پاس اس مچھلی کا گوشت ہو تو ہمیں بھی کھلاﺅ ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ ہم نے اس مچھلی کا گوشت بارگاہِ مصطفےٰ ﷺ میں پیش کیا اور
تاجدار انبیاءﷺ نے اسے تناول فرمایا۔ (بخاری شریف)
خرگوش کا گوشت:نبی کریم ﷺ نے خرگوش کا گوشت بھی کھایا ہے ۔اس کا جواز آپ ﷺ
کی یہ حدیث ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک خرگوش کو (اُس کے مقام سے)
نکالا ۔لوگ اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک گئے ۔مگر میں نے اسے پکڑ ہی لیا
اور اسے حضرت ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا انہوں نے اسے ذبح کیا
اور اس کے رانیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت انور میں بھیج دیں ۔حضور نبی کریم ﷺ
نے اسے قبول فرمالیا ۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ تناول فرما لیا ۔(صحیح
بخاری شریف)
حباریٰ :حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ
حباریٰ کا گوشت کھایا ۔حباریٰ بیٹ کو کہا جاتا ہے ۔(ترمذی)
نیل گائے کا گوشت:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک
نیل گائے کو دیکھا اور اس کو شکار کیا ۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (اے
قتادہ ) اس کے گوشت میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟انہوں نے عرض کیا کہ اس کا
پاﺅں ہمارے پاس ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے اسے پکڑا اور تناول فرمایا۔ (صحیح بخاری
و مسلم شریف)
گھی ،مکھن ،پنیر:حضرت اُمّ اوس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے گھی
گرم کر کے ایک برتن میں بھر لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہدیة ً
پیش کیا ۔آپ ﷺ نے قبول فرما لیا اور برتن میں تھوڑا سا گھی چھوڑ کر پھونک
ماری اور برکت کی دعا فرمائی اور (اصحاب سے) فرمایا کہ اُمِ اوس کا برتن
واپس کر دو۔ صحابہ کرام نے برتن واپس کر دیا۔تو وہ گھی سے بھرا ہوا تھا
۔حضرت اُم اوس رضی اللہ عنہا نے خیال کیا کہ شاید حضور اکرم ﷺنے گھی قبول
نہیں فرمایا ۔حضرت ام اوس رونے کے انداز میں بات کرتی ہوئی حاضر خدمت ہوئیں
اور عرض کرنے لگیں :”یا رسول اللہ ﷺ میں نے گھی اس لئے گرم کیا تھا کہ آپ ﷺ
تناول فرما لیں گے ۔“ آپ ﷺ اُمِ اوس کی بات سے سمجھ گئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ
اُمّ اوس سے کہہ دو کہ (ہم نے گھی قبول فرما لیا اور تناول بھی فرما لیاہے)
اب خوب یہ گھی کھائیں ۔اُم اوس نے وہ گھی حضور سرور کائنات ﷺکے وصال مبارکہ
کے بعد حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ خلافت تک کھایا
۔اُس برتن سے مسلسل گھی نکلتا رہا ۔یہاں تک کہ حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو ا’یعنی اس وقت برکت جاتی رہی اور
گھی ختم ہو گیا ۔(خصائص الکبریٰ)
ایک صحابی سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے ہم نے (آپ ﷺ
کے تناول فرمانے کے لئے ) مکھن اور کھجوریں پیش کیں ۔ حضور اکرم ﷺ مکھن اور
کھجوروں کو پسند فرماتے تھے ۔(ابی داﺅد)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ سید عالم ﷺ کی خدمت فیض درجات میں پنیر کا ایک ٹکڑا لایا گیا ۔آپ ﷺ
نے بسم اللہ شریف پڑھ کر (تناول فرمانے کے لئے) اُسے کاٹا۔(سنن ابی داﺅد)
کھجور وجَو کا آٹا:کھجور اہل عرب عموماً خوراک کے طور پر استعمال کرتے تھے
۔حضور نبی کریم ﷺ نے کھجور کی بڑی تعریف فرمائی خصوصاً عجوہ کھجور کی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اُم المومنین
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا ولیمہ کھجور اور ستو کے ساتھ کیا ۔(شمائل
ترمذی)
حضرت اُمّ منذر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف
لائے ۔ہمارے ہاں کھجور وں کے خوشے لٹک رہے تھے (میری درخواست کرنے پر )
حضور اکرم ﷺ ان میں سے تناول فرمانے لگے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
بھی ساتھ تھے وہ بھی تناول فرمانے لگے تو انہیں روک دیا اور فرمایا کہ تم
ابھی بیماری سے اُٹھے ہو ۔تم مت کھاﺅ وہ رک گئے ۔سید الانبیاءﷺ تناول
فرماتے رہے حضرت ام منذر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر میں نے تھوڑے سے
جَو لئے اور چقندر کے ساتھ پکا کر حاضر خدمت کیے تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
:” اے علی ! یہ کھاﺅ ،کیونکہ یہ تمہارے لئے مناسب ہے ۔(ترمذی شریف)
روغن زیتون:حضور تاجدار انبیاءﷺ نے روٹی کو روغن زیتون سے چوپڑ کر تناول
فرمایا ہے اور بڑا پسند فرمایا ہے ۔حضرت عمر و ابو ا سید رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” زیتون کا تیل کھاﺅ اور مالش میں
استعمال کرو۔اس لئے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے ۔“(ترمذی)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن بن علی المرتضیٰ
،حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم ان کے پاس
تشریف لے گئے اور فرمائش کی کہ رسول اللہ ﷺ کو جو کھانا پسند تھا اور رغبت
سے تناول فرماتے تھے ۔وہ ہمیں پکا کر کھلا ﺅ ۔حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے
فرمایا کہ پیارے بیٹو!آج وہ کھانا (تمہیں شاید) پسند نہیں آئے گا ۔انہوں نے
فرمایا :” ضرور پسند آئے گا ۔“ چنانچہ وہ اٹھیں تھوڑے سے جو لے کر آئیں
،انہوں نے باریک کیا اور ہانڈی میں ڈال دئے ،پھر اس پر تھوڑا سا روغن زیتون
ڈالا ،پھر کچھ مرچیں اور زیرہ وغیر ہ ڈالا اور پکا کر ان کے سامنے رکھ دیا
۔حضرت سلمیٰ نے فرمایا کہ کھانا رسول اللہ ﷺ کو بہت پسند تھا ۔(ترمذی)
سرکہ:حضور تاجدار انبیاءﷺ نے نہ صرف کہ تناول فرمایا :بلکہ اس کی تعریف بھی
فرمائی ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” سرکہ بھی کیسا بہترین سالن ہے
۔“(ترمذی شریف)
حضرت اُ مّ ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ میرے گھر
تشریف لائے اور فرمایا : کیا تیرے پاس (کھانے کے لئے ) کوئی شے ہے ؟ میں نے
عرض کیا سوکھی ہوئی روٹی اور سرکہ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔حضور اکرم ﷺ نے
فرمایا ۔وہی لے آﺅ وہ گھر سالن سے خالی نہیں جس گھر میں سرکہ ہو ۔(شمائل
ترمذی)
کدو:حضور سید عالم ﷺ کو سبزیوں میں کدو بہت پسند تھا ۔حضرت انس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور نبی کریم ﷺ کے لئے کھا نا تیار کیا اور
دعوت دی ۔میں بھی ساتھ ہی تھا ۔اُس درزی نے جو کی روٹی اور شوربا پیش خدمت
کیا ،جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے ۔میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو
دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو تلاش فرما کر تناول فرما رہے تھے ۔میں اس
روز کے بعد ہمیشہ کدو کو پسند کرنے لگا۔(بخاری ،مسلم ،ترمذی)
حضرت جابر بن طارق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں
حاضر ہو ا تو دیکھا کہ کدو کے چھو ٹے چھوٹے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں میں نے عرض
کیا کہ ”ان کا کیا بنے گا؟“ فرمایا :” سالن میں اضافہ کیا جائے گا۔“(ترمذی
شریف)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سید عالم ﷺ کو کدو بہت پسند تھا
۔ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ کسی دعوت میں تشریف لے گئے ۔کھانا حاضر خدمت
کیا گیا ۔اُس کھانے میں کدو تھا ۔چونکہ مجھے معلوم تھا کہ حضور اکرم ﷺ
کوکدو مرغوب ہے اس لئے میں اس کے قتلے ڈھونڈ ھ ڈھونڈھ کر سامنے کر دیتا تھا
اور سرکار دو عالم رسول اللہ ﷺ تناول فرما لیتے تھے ۔(شمائل ترمذی)
قدید:رسول اللہ ﷺ ایک روز قدید تناول فرما رہے تھے کہ ایک بد زبان عورت
حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے بھی قدید عنایت فرمائیے ۔آپ ﷺ نے جو
قدید سامنے رکھا تھا ۔اُس میں سے اسے بھی عطا فرمایا ۔اس عورت نے عرض کیا
کہ اپنے منہ سے نکال کر دیجئے ۔آپ ﷺ نے اپنے منہ سے نکال کر اُسے عطا
فرمایا اور وہ کھا گئی۔ اُس روز کے بعد کبھی بھی اس کے منہ سے قبیح اور فحش
کلام سننے میں نہ آیا۔(خصائص کبریٰ )قدید کا مطلب خشک کیا ہوا گوشت ہے جو
پانی میں بھگوکر پکا یا جاتا ہے ۔
ثرید :روٹی کوشو ربے میں پکانا یا گوشت کے شوربے میں توڑ کر بھگونا تا کہ
اچھی طرح گل جائے ثرید کہلاتا ہے ثرید آپ کو بہت پسند تھا اسے آپ ﷺ بڑی
چاہت سے تناول فرماتے تھے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضو
رنبی کریم ﷺ کا محبوب ترین کھانا روٹی کا ثرید تھا ۔(ابو داﺅد شریف)
ثرید کی پسندیدگی کا اندازہ ترمذی شریف کی اس روایت سے بھی لگایا جا سکتا
ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا : ”عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسے ہے
جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے ۔“(شمائل ترمذی)حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ثرید سے بھرا ہوا ایک پیالہ لایا
گیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا :” اس کے کناروں سے کھاﺅ۔ درمیان سے نہ کھاﺅ ۔کیونکہ
درمیان میں برکت کا نزول ہوتا ہے ۔“ (ابن ماجہ)
متفرق کھانے:مدارج النبوة میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جَو کی روٹی کے ساتھ
چقندر تناول فرمایا ۔حدیث میں ہے کہ رسول مقبول ﷺ حلوہ (شیرینی) کو بھی بہت
پسند فرماتے تھے ۔مواہب الدنیہ نے ثعلبی سے نقل فرمایا کہ وہ حلوہ (شیرینی)
جسے حضور انور ﷺ پسند فرماتے تھے ۔اس کا نام مجمع تھا کہ ایک قسم کی کھجور
تھی۔ جسے دودھ کے خمیر کے ساتھ تیار کیا جاتا تھا ۔روایات میںہے کہ حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ایک تجارتی قافلہ آیا ۔جس کے ساتھ شہد اور آٹا
تھا ۔ایک اور روایت میں ہے آٹا ،گھی ،میدہ اور شہد تھا ۔ حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تھوڑا تھوڑا خدمت اقدس میں پیش کیا ۔سرورِکائنات
ﷺ نے ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی ۔پھر دیگچی منگوائی اور ان اشیاءسے حلوہ
تیار کروایا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اسے کھاﺅ ۔یہ وہ چیز
ہے جسے اہل فارس حیص کہتے ہیں ۔
مدارج النبوة میں ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے بھنا ہوا جگر بھی تناول فرمایا
:حافظ ابی نعیم رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے
روایت نقل کی کہ شاہ روم کی طرف سے خدمت اقدس میں سونٹھ کے مربہ کا بھرا
ہوا برتن ارسال کیا گیا ۔حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام میں تقسیم بھی فرمایا
اور خود بھی تناول فرمایا ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے حضور
کھانا پیش کیا جاتا ۔تو آپ ﷺ اس میں سے تناول فرما لیتے اور جوبچتا ۔ اسے
میری طرف بھیج دیتے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا :جو شخص لہسن یا پیاز کھائے ۔اسے چاہیے کہ وہ ہم سے جدارہے یا
فرمایا کہ ہماری مساجد سے دور رہے یا فرمایا کہ اپنے گھر میں بیٹھ رہے بے
شک نبی کریم ﷺ کے پاس ہنڈیا لائی گئی جس میں مختلف قسم قسم کی سبزیاں تھیں
۔حضور اکرم ﷺ نے بو محسوس کی ،تو فرمایا : اسے فلاں فلاں (صحابہ ) کے پاس
لے جاﺅ اور (ہدیہ پیش کرنے والے سے فرمایا ) تو کھالے اس لئے کہ جن سے میں
سر گوشی کرتا ہوں ،تم ان سے سر گوشی نہیں کرتے ۔(بخاری و مسلم)
نئے پھل کو پسند فرمایا :پھل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہترین نعمت
ہیں ۔حضور انور ﷺ نے بقدر خواہش پھلوں کو بھی تناول فرمایا ۔صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بازار میں کوئی نیا پھل
دیکھتے تو خرید کر بارگاہ نبوی (ﷺ) میں پیش کر دیتے تاکہ پھل پہلے حضور
سرور کائنات ﷺ تناول فرمائیں ۔(شاید اسی لئے آج بھی نیا پھل بزرگوں سے شروع
کروایا جاتا ہے ۔)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام جس کسی نئے پھل کو
دیکھتے (تو خود کھانے سے) پہلے اسے خدمت اقدس میں پیش کرتے اور جب آ پ ﷺ اس
پھل کو پکڑتے تو بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے کہ اے اللہ تعالیٰ ہمارے
پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں برکت فرما ۔ہمارے صاع اور مد میں برکت نازل
فرما ۔اے اللہ تعالیٰ بے شک ابراہیم علیہم السلام تیرے بندے ،تیرے خلیل اور
تیرے نبی تھے ۔بے شک میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ﷺ ہوں اور حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے شہر مکہ کے لئے دعا کی تھی اور میں تجھ سے
شہر مدینہ کے لئے وہی دعا کرتا ہوں ، جو انہوں نے مکہ معظمہ کے لئے کی تھی
۔بلکہ اس سے دو گنی دعا کرتا ہوں ۔(ترمذی شریف )
حضرت ابو عسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شام رسول اللہ ﷺ باہر تشریف
لے گئے ۔آپ ﷺ جب میرے پاس سے گزرے ،تو مجھے آوازدی ۔ میں آپ ﷺ کے ساتھ چل
پڑا ۔پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر ے ،تو ان کو بھی
ساتھ لے لیا ۔پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے ،تو اُن کو
بھی ساتھ ملا لیا ۔یہاں تک کہ ہم ایک انصاری صحابی کے باغ میں پہنچے ۔حضور
نبی کریم ﷺ نے باغ کے مالک سے فرمایا ۔ہمیں نیم پختہ کھجوریں کھلاﺅ ۔وہ
خوشہ لے آیا اور سامنے رکھ دیا ۔حضور اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے (یعنی ہم
نے جو ساتھ تھے) کھایا ۔پھر سرور کائنات ﷺ نے ٹھنڈا پانی منگوا کر نوش جان
فرمایا ۔پھر ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان نعمتوں کا تم سے ضرور سوال ہو
گا ۔حضرت ابو عسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خوشہ
پکڑا اور زمین پر مارا تو کچی کھجوریں بکھر گئیں ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا ان کے متعلق بھی ہم سے پوچھا جائے گا
۔؟ فرمایا ہا ں! البتہ تین چیزیں ہیں جن کے متعلق سوال نہ ہو گا ۔(1 ) وہ
کپڑا جس سے انسان اپنا ستر ڈھانپے ۔(2) وہ روٹی کا ٹکڑا جس سے اپنی بھوک
مٹا لے ۔ (3 ) وہ مکان جس میں گرمی یا سردی سے بچنے کے لئے داخل ہو ۔(رواہ
احمد و بیہقی فی شعب الایمان مشکوٰة )
حضرت ام منذر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ میرے ہاں تشریف لائے
۔ہمارے ہاں کھجوروں کے خوشے لٹک رہے تھے (میری گزارش پر) آپ ﷺ نے ان میں سے
تناول فرمایا ۔(ترمذی شریف)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ایک انصاری عورت کے ہاں
تشریف لے گئے ۔میں بھی ہمراہ تھا ۔انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک بکری
ذبح کی ۔آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا تناول فرمایا ۔پھر ایک برتن میں کچھ
کھجوریں لائیں گئیں ۔آپ ﷺ نے ان میں سے بھی کچھ تناول فرمائیں ۔پھر ظہر کی
نماز کے لئے تشریف لے گئے اور وضو کر کے نماز ظہر ادا کی ۔پھر واپس تشریف
لائے تو اس عورت نے (دو بارہ )بچا ہو ا گوشت پیش کیا ۔آپ ﷺ نے (تھوڑا سا )
تناول فرمایا اور دوبارہ وضو فرمائے بغیر (یعنی پہلے ہی وضو سے) نماز عصر
ادا فرمائی ۔(ترمذی شریف)۔
ککڑی اور کھجوروں کا تناول فرمانا :حضرت ابو عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ
راوی ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ ککڑی کو تازہ کھجور کے ساتھ
تناول فرماتے تھے ۔(شمائل ترمذی)
خربوزہ اور کھجور کھاناحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے
حضور اکرم ﷺ کو خربوزہ اور کھجور ایک ساتھ تناول فرماتے ہوئے دیکھا ۔(شمائل
ترمذی )ابو داﺅد شریف میں یہ زائد ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ
کھجور کی گرمی کو تربوز کی سردی سے اور تربوز کی سردی کو کھجور کی گرمی سے
ختم کیا جائے گا۔(مشکوٰة شریف)مدارج النبوة میں ہے کہ رحمت عالم ﷺ شخمة
النخل (یعنی وہ گودہ جو کھجور کے درخت سے گوند کی مانند نکلتا ہے) کو بہت
پسند فرماتے تھے ۔
انگور کو پسند فرمایا:حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو انگور کے خوشے اس طرح تناول فرماتے ہوئے دیکھا
کہ (چھوٹا سا ) خوشہ منہ میں لے کر دانے توڑے اور تنکول کو باہر کھینچ
لیتے۔(مدارج النبوة)۔
اس کے علاوہ بھی کچھ سادہ عذائیں ہیں جو سرکار مدینہ ﷺ نے تناول فرمائیں
۔مگر ہر غذا لیتے ہوئے اعتدال کو ملحوظ خاطر فرمایا ۔یہ غذائیں اس لئے ذکر
کر دی گئی ہیں کہ عاشقانِ رسول ﷺ انہیں استعمال کر کے سنت کا اجر حاصل کر
سکیں ۔اللہ تعالیٰ طریقہ نبوی ﷺ کے مطابق ہمیں حلال و طیب غذائیں کھانے کی
توفیق بخشے ۔آمین! |