جس معاشرے میں غیر تعلیم یافتہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو
جائیں اور اعلی تعلیم و ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوان سڑکوں پر رکشا
چلاتے یا بے روزگار نظر آئیں تو یقینا وہ معاشرا تباہی و بدحالی کا شکار ہو
جایا کرتا ہے ۔ تب اسی طرح نوجوان روزگار کی خاطر اپنے پیاروں سے بچھڑے گے
حتی کہ اپنے وطن سے بچھڑتے رہیں گے اور اسی طرح کے واقعات پیش آئیں گے کے
آج غیر قانونی ذریعے سے بارڈر پار کرتے ہوئے پاکستانی نوجوان پکڑے گئے، یا
کشتی میں ڈوب کر جانبحق ہو گئے۔ حکومت و سرکاری اداروں سے آج ہر فرد کا
سوال ہے میں خود یہ سوال کرتی ہوں کے آخر روزگار کی خاطر ہمارے ملک کے
معمار ہمارے ملک کی نوجوان نسل کو دوسرے ممالک میں کیوں جانا پڑتا رہے گا
؟کیوں آزادی ریاست کے ہوتے ہوئے بھی غیر ممالک کی غلامی تلے رہنا پڑتا ہے
ہمارے پاکستانی نوجوانوں کو؟ کیوں ہمارا ملک آزاد ہے ایک آزاد ریاست ہے مگر
آزادی۔۔۔۔آزادی نہیں ہے۔ روزگار تو ہے مگر روزگار حاصل کرنے کے مواقع نہیں
ہیں کیونکہ وہ مواقع رشوت خوروں و طاقتور کے نظر ہو جاتے ہیں۔اگر پاکستان
میں عام طبقات کے لئے روزگار ہوتا، اگر عام انسان کی ڈگری کی کوئی اہمیت
ہوتی تو آج کتنے ہی گھروں میں صفے ماتم نہ بچھا ہوتا، ماؤں کو ان کے بیٹے
سفید کفن میں نظر نہیں اتے، معصوم بچوں کے سر سے ان کے والد کاسایہ نہ
چھینتا۔ کچھ روز قبل 18 جون 2023 کو یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعے کی جتنی
مزمت کی جائے کم ہے جس میں 300 پاکستانی افراد اپنی جانیں گنوا گئے صرف
روزگار کی تلاش میں اور یہی نہیں ہر سال کئی ایسے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔
حادثہ کی زد میں جان سے جانے والوں میں کوئی ایسا شخص بھی تو ہو سکتا ہے کہ
پوری نظامِ زندگی اس پر انحصار ہوگی آخر کون ہوگا سہارا اب ان گھرانوں
کا۔ہمارے قومی راہنما اپنی لمبی لمبی تقاریر میں غریب عوام کی حمایت میں
بیان دیتے ہیں مگر در حقیقت غریب عوام، عام طبقات غریب سے غریب تر ہوتے چلے
جارہے ہیں اور طاقت و صاحب اقتدار لوگ رشوت و طاقت کے زور پر اعلی عہدوں پر
فائز ہو رہے ہیں جبکہ غریب والدین کی اپنے بچوں پر کی گئی محنت، محنت ہی
راہ جاتی ہے۔ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرنے اور تھک ہار جانے کے بعد
کاغذ کی ڈگریاں ردی کی مانند لگتی ہیں۔یونان کشتی کے حادثے کا واقع انسانیت
پر ایک سوالیہ نشان چھوڑتا ہے کہ ایک انسان سے بڑا ظالم کوئی نہیں ایک
انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن کہلاتا ہے۔ غریب طبقات کو اپنی حمیت کو
ترک کر دینا پڑتا ہے اور روزگار کی خاطر غیر ملکی چاکری و غلامی کرنا پڑتی
ہے اپنے سر پر آزاد ریاست کے باوجود بھی۔گزشتہ دس سالوں کی اگر بات کی جائے
تو پاکستانی شہریوں کی بیرونِ ممالک میں منتقلی و پناہ گاہ میں 148 فیصد
اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد روزگار کی خاطر اپنوں سے دور
غیر ممالک کی غلامی میں چلے جاتے ہیں۔ 112 انسانی اسمگلرز قانون کی گرفت سے
باہر 32 ممالک میں بھاگ چکے ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لوگ غیر
قانونی ذریعے اور راستے سے یورپ و دیگر ممالک میں جاتے ہوئے مختلف حادثات
کے پیشِ نظر ہوئے اور ان حادثات میں کئی گناہ زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر اسی
طرح ہمارے ملک کے نوجوان، ہمارے پاکستانی مستقبل کے معمار دوسرے ممالک کی
ترقی کا باعث بنتے رہے تو پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ |