انسان خودسب سے زیادہ خطرناک وائرس ہے
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
کائنات میں جو بھی مخلوق ہے ، بے شک خالقِ کائنات کی ہی تخلیق ہے ، ہم نے نام مختلف دئیے ہوئے ہیں جیسے ڈائنا سور اور جراثیم یا وائرس۔ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سی چھوٹی مخلوق کا نام ہمیں معلوم ہے اور انسان ایسی مخلوق ہے جس کا ہر قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑا اور پڑتا رہیگا، شاید اسی لئے اس کو اشرف المخلوقات کا نام دیا گیا لیکن میرے خیال میں ایک اور زاویہ ہے انسان کو دیکھنے اور پرکھنے کا اور وہ یہ کہ یہی وہ مخلوق ہے جو کائنات کی تمام معلوم اور نامعلوم مخلوقات کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ اس نے ایک زمانے میں ڈائناسور کا شکار کرکے اس کو بھی کھا لیا اور جراثیم یا وائرس تو ازل سے اپنی جانوں پر کھیل کر کھاتی چلی آرہی ہے۔ آج تک تمام دریافت شدہ وائرس انسان کے جسم میں جاتا ہے ، یا تو وہ انسان اس کو برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہے یا اسی وائرس سے بچنے کے لئے اس کا توڑ اپنے جسم میں داخل کر لیتا ہے تاکہ قدرتی اور مصنوعی دونوں وائرس لڑیں ، مقابلہ کریں تاکہ انسان کی زندگی کا فیصلہ ہو سکے کہ کیسے بچانی ہے؟ میری نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ازل سے ابد تک جتنے بھی وائرس دریافت ہوں گے، انسان ان سب سے زیادہ خطرناک وائرس ہے کیونکہ یہ تمام کائناتوں میں موجود ہر مرئی اور غیر مرئی شے کو کھا جاتا ہے، کووڈ 19 اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔مشرق سے مغرب تک نہایت اہم و مشہور ممالک کا سفر طے کرنے اور وہاں کے مقامی لوگوں سے دوستانہ تعلقات بنا لینے کے بعد جو میں نے سیکھا وہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان جتنا دوسرے انسان سے ڈرتا ہے اتنا کسی نا معلوم مخلوق سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ تاریخ میں جس قدر ہلاکتیں انسان کے ہاتھوں ہوئیں وہ کسی اور مخلوق کے باعث نہ ہوئیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان نے ہر دیگر مخلوق سے زیادہ بہتر ذہن پایا ہے لہذا وہ ہر دیگر مخلوق کی جانب سے اپنے اوپر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی اس کا انتظام کر لیتا ہے اگر اس عمل میں تاخیر بھی ہو جائے تو وہ انسانی نقصان ہونے کے بعد اپنے شعور و تحقیق کے بعد اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلینے کے بعد اپنے آنے والی نسلوں کو ہر صورت بچاتا آیا ہے لیکن دیگر انسانوں کی ذہنی برتری کے باعث وہ کسی ایسے آنے والے اَن دیکھے خطرے سے قطعئی طور سے لا علم رہنے کے باعث ہر مرتبہ نقصان اٹھاتا ہے اور آئندہ بھی اٹحاتا رہے گا۔ انسان کا شعور ہمیشہ ترقی پذیر رہا ہے اور یہ ارتقائی عمل ابد تک جاری رہے گا چنانچہ ہر آنے والے لمحے انسان کو انسانی حملہ کے لئے تیار رہنا عملی طور سے ناممکن ہے، سو نقصان ہونے کے بعد جب وہ اِس حملہ کا توڑ دریافت کر پاتا ہے تو دوسرے لمحے ایک نیا حملہ کا طریقہ واردات دریافت ہو چکا ہوتا ہے، یہ چوہے بلّی کا کھیل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ مبالغہ آرائی کی حدود میں داخل ہونے سے اجتناب کرتے ہوئے میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قدرتی آفات سے انسانی جانوں کا زیاں مکمل روکنے نہیں تو اس کو کم سے کم کرنے کے انتظامات کر لینے سےبھی بیش بہا خطرات سے انسان نے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے اور یہ عمل بھی ارتقائی منازل کی جانب نہایت خوش اسلوبی اور سُبک رفتاری سے رواں دواں ہے۔
|