جھوٹی شان و شوکت کی ملمع کاری

انسان نے اپنی قدر و منزلت خود کم کی اور مزید کرتا چلا جارہا ہے۔ بعض مرتبہ مزاح میں کوئی بات کی ہوئی اصل بات سے زیادہ معنی خیز ہوتی ہے جیسے علامہ اقبال نے کہا:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اور مزاح نگار نے اس کو یوں پیش کیا:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
طنز و مزاح میں بھی جو بات منہ سے نکلتی ہے وہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوتی ہے اسی لئے اکثر اصل بات سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔
قبل از تاریخ کے انسان نے پہلے طاقت کے بل بوتے پر زمین کے ٹکڑوں پر قبضہ کرکے بنی نوع انسان کو قبائل میں تقسیم کیا پھر دولت کے بل بوتے پر اور جب کوئی اور ہتھیار نہ مل سکا تو مذہبی و سیاسی بنیادوں پر تقسیم روا رکھی جو تا حال جاری ہے۔ عقل و دانش کی عطا میں فراوانی کو مثبت انداز میں انسانیت کی خدمت کے مقابلے میں انسانیت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک سُراب کی مانند اس راستہ پر لگا دیا جس میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ شہرت کا ایسا چسکا ملایا کہ بات انٹرنیٹ سے شروع ہوکر واٹس ایپ گروپس تک آن پہنچی تا آنکہ پسند و ناپسند کے زہر نے ان گروپس کو تقسیم در تقسیم کیا، شہرت کی چمک میں حسد کے کینسر نے وسیع الدماغی اور وسیع القلبی کو تقریباً بھسم کر دیا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت کی ملمع کاری نے انسانی عظمت کو فرعون کی ممی بنا کر اونچی اونچی احرامِ مصر نما پتھروں میں دفن کر دیا ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے۔
خدا بننے کا انسان کا شوق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا مع سوائے عظیم پیغمبران کے جن کو عام انسانوں سے کہیں زیادہ اختیارات عطا کیے گئے اور حد تو یہ ہے کہ معجزات بھی عطا کئے لیکن انھوں نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ معجزات اس بات پر قائل کرنے کے لئے عطا ہوئے کہ عام انسانوں کو باور کرایا جاسکے کہ ہمیں نبی یا رسول منتخب کرکے اس لئے بھیجا تاکہ ہم یہ بتا سکیں کہ خالقِ کائنات “ایک” ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ حضرت عیسیًٰ کو تو مردے کو جِلا بخشنے کی خاصیت بھی عطا ہوئی لیکن ایک پرندے کو ذبح کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑیوں پر پھینک کر آنے کے بعد آپ نے اس کو پھر سے صحیح سالم اور زندہ کر دینے کے باوجود بھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ میں خدا ہوں جبکہ قدیم مصری تہذیب میں بے پناہ طاقت و اختیارات ملنے کے بعد وقت کے فرعونوں نے اپنے آپ کو خدا منوانے کے لئے ان مٹ کوششیں کیں، اسی طرح قدیم یونانی تہذیب میں لامحمود طاقت و اختیارات پالینے کے بعد عام عوام کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کو دیوتا کہیں یا دیوی کہیں اور ان کے آگے جھکیں۔
یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری و ساری ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر تو بت توڑ ڈالے گئے لیکن اس کے باہر آج کے بادشاہ کا حکم نافذالعمل ہے کہ اس سے ملاقات کے لئے آنے والے ہر شخص کو اس کے سامنے سر جھکانا لازم ہے۔ سومنات کا مندر تو ڈھا دیا گیا لیکن گوتم بدھ جیسے عظیم انسانوں کے علاوہ جانوروں کے بُت بنا کر پوجنا ثقافت نہیں بلکہ عبادات کا ایک بنیادی اور لازمی عنصر ہے۔ انگلینڈ کی ملکہ سے ملاقات کرنے والے ہر شخص کو بھی اس کے سامنے جھک جانا لازم ہے، جاپان کے بادشاہ کے سامنے جھکنے کی روایت معاشرہ میں اس قدر جڑ پکڑ گئی کہ وہاں آج بھی عام لوگ ایک دوسرے سے ملتے اور جدا ہوتے وقت ایک دوسرے کے سامنے اس وقت تک سر جھکاتے رہتے ہیں جب تک تھک نہ جائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عموماً قبروں و مزارات کے سامنے جھکنا کوئی معیوب نہیں بلکہ لازم سمجھا جاتا ہے اور تو اور کوئی الّلہ کا نیک و برگذیدہ بندہ نہ بھی ہو لیکن کسی قبیلہ کا سردار ہو یا بڑا سیاستدان، اس کی زندگی میں اور مرنے کے بعد اس کی قبر پر حاضری دینے پر تو جھکنا ہی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کے نام کے ساتھ “جئے” لگانا ایک معروف روایت بن چکی ہے جیسے “جئے بھٹو”، اور ہاں اس نام سے شدید متاثر ہونے کے بعد تو سیاسی نعرہ ہی بن گیا جیسے جئے الطاف، جئے نواز شریف وغیرہ وغیرہ۔
گویا بت پرستی آج تک ختم نہ ہوسکی اور لگتا ہے یہ شریر انسان اگلے جہان میں بھی کوئی نہ کوئی اپنی پسند کا شرک نکال لے گا۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 184 Articles with 150774 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More