جو چیز اپنی افادیت کھودیتی ہے اپنا وجود بھی کھو دیتی ہے


انسان کی افادیت ہی اس کا معیار و مقام طے کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سچائی یہ ہے کہ جو چيز اپنی افادیت کھودیتی ہے اپنا وجود بھی کھو دیتی ہے ۔ ہم ڈاکٹر کی تشخیص کی گئی قیمتی دوائيں اکسپائر ہونے پر اس لیے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں کہ اب وہ اپنی افادیت کھوچکی ہیں ۔ اس کائنات کا اصول یہ ہے کہ جو کسی کام کا نہیں اسے زندہ رہنے کا حق بھی نہيں ۔
قرآن کریم کی آیک آیت میں اس حقیقت کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے ، ترجمہ ( جہاں تک جھاگ کی بات ہے تو وہ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے اور جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے )۔ الرعد : 17
 

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اس کی بڑی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے ۔ جب جبرئیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی مرتبہ سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں لے کر اترے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا ، آپ گھبرائے اور اپنی زوجہ محترمہ ام المومین خدیجہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ مجھے اپنی جان کے ضائع ہونے کا ڈر لگتا ہے ۔ اماں خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اس وقت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات کہی وہ کائنات کا عظیم اصول ہے ۔ انہوں نے کہا : ہر گز نہيں ، اللہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا ، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، مظلوموں کی مدد کرتے ہیں ، بے بسوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں ، مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے معاملے میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔( بخاری )
 

ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی ان سنہری باتوں پر غور کیجے تو پتہ چلا کہ انہوں نے کتنی عظیم بات کہی ہے ۔ اللہ بزرگ و برتر نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا نہیں کیا کہ ان میں یہ عظیم صفات پائی جاتی تھیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرہ میں جی رہے تھے اس کے لیے مفید تھے ، آپ کی ذات سے لوگوں کو نفع پہنچ رہا تھا ۔ آپ کا افادہ عام تھا ۔آپ دے رہے تھے اور یہ کائنات کے اصول کے خلاف ہے کہ دینے والے نفع پہنچانے والے مٹ جائیں ۔اسی حقیقت کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال کی روشنی میں بھی دیکھیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
“ لوگوں میں اللہ کو سب سے محبوب وہ ہیں جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہیں ” ( صحیح الجامع : 176)
 

مسلم شریف کی ایک معروف حدیث ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو سوائے تین کے اس کے سارے اعمال ختم ہوجاتے ہیں ۔صدقہ جاریہ ، نفع بخش علم اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے ۔ حدیث پر غور کیجیے تو پتہ چلا کہ یہ تینوں اعمال اس لیے باقی رہ جاتے ہيں کہ ان کی افادیت بھی باقی رہتی ہے اور جس کام کی افادیت باقی ہو اس کا اجر ختم کیسے ہوسکتا ہے ؟ فائدہ بخش چیزیں نہیں مٹتیں۔


اب ذرا اس امت کے بار ے میں سوچیے کہ اس امت کو اللہ نے دنیا میں برپا کیوں کیا ؟ قرآن حکیم کی جس آیت میں ہمیں خیر امت کہا گيا ہے اسی میں ہمارے بارے میں کہا گیا ہے ” اخرجت للناس ” یہ امت لوگوں کے لیےنکالی گئی ہے ۔ گویا ہماری بعثت و وجود کا الہی مقصد ہی لوگوں کو راہ ہدایت پر لانا اور انہیں فائدہ پہنچانا ہے ۔ رستم کے دربار میں ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے اسی عظیم حقیقت کا ان الفاظ میں اظہار کیا تھا ” اللہ نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم لوگوں کو لوگوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لگادیں ، دنیا کی تنگی سے نکال کر اس کی کشادگی میں لے آئیں اور ادیان باطلہ کے جور وظلم سے نجات دے کر اسلام کے شاہراہ عدل پر گامزن کردیں"

اگر ہم مسلمانوں کے دور عروج کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ مسلمان عقیدہ و ایمان کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں فائدہ رسانی کے معاملے میں سب سے فائق تھے ۔ دنیا کو ہر نئی سہولت ان کے راستے سے مل رہی تھی ، وہ جہاں جہاں جارہے تھے ان کا وجود رحمت و برکت اور نفع و افادیت سے معمور تھا ۔ وہ غلامی کی زنجیریں کاٹ رہے تھے ، خوف کو سکون سے بدل رہے تھے ، بدحالی کو خوشحالی اور تنگی کو وسعت میں تبدیل کررہے تھے اور نتیجہ یہ تھا کہ وہ جس طرح نکل جارہے تھے لوگ ان کے ہوتے جارہے تھے ۔در اصل وہ لوگوں کو دے رہے تھے اور دینے والوں کا ہمیشہ ہی استقبال کیا جاتا ہے۔


آج مغرب کی بالادستی کے پیچھے بڑی وجہ ان کی افادیت ہے ۔ وہ فائدہ پہنچانے کے معاملے میں سب سے فائق ہیں اس لیے سیادت وقیادت کے معاملے میں بھی یہی کیفیت پائی جاتی ہے ۔برصغیر کی سطح پر دیکھیے تو یہاں عیسائیوں نے تعلیم اور صحت کے میدانوں میں اپنی خدمتیں انجام دی ہیں ، وہ معاشرے کے لیے مفید عنصر ہیں اس لیے ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ۔اس تناظر میں ہم مسلمانوں کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم جس سماج کا حصہ ہیں جہاں برادریاں ، قبیلے، زات پاتیں وغیرہ کیا ہم اس سماج کو کچھ دے رہے ہیں ؟ ہماری افادیت کیا ہے ؟ ہم سے لوگوں کا کیا کیا فائدہ منسلک ہے ؟ ہمارا یہ احتساب ہی ہمارا مقام طے کردے گا۔


اللہ پاک نے مسلمانوں کو اس لیے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ دیں ، صحیح حدیث کے الفاظ میں دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے اونچا ہوتا ہے ۔ ہمیں یہ خود سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم دینے والے بنیں اور دینے سے مراد یہ ہی نہیں کہ صرف مال و دولت دیں نہیں ہر وہ شے جس سے سامنے والے کو راحت مل سکے اور ہم سے جس کو بھی فائدہ ہو اس کی آگے سے آگے بڑھ کر مداوا کریں اس ہی میں ہم سب کی افادیت ہے-

انجینیر!  شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.