تحریر ـ:عبدالخالق چودھری
آج کل پاکستان میں اتائی صحافیوں کا سیلاب آیا ہوا ہے جسے دیکھو ہاتھ میں
خود ساختہ مائیک اور کمیرہ والا موبائل فون پکڑے ہوئے گلے میں خوبصورت
رنگوں سے مزین پریس کارڈ ڈالے ہوئے سرکاری دفاتر تھانہ کچہری ہسپتال سکول
چوک چوراہوں لاری اڈا اور ٹھیلے ریڑھیوں خوانچہ فروشوں غریب ترین لوگوں کے
پیچھے بھاگ رہا ہے اور مظلوم غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد
کو ڈرا دھمکا کر ان سے روزی روٹی چھین کر سرعام دن دیہاڑے ڈاکا ڈال کر
عوامی مسائل شہریوں کو حقوق اور مظلوموں کی داد رسی کرنے میں مصروف عمل ہے
پھر یہ اتائی صحافی رزق روٹی حاصل کرنے کے لیے اتائی صحافی سے میراثی بن
جاتے ہیں اور منفی سرگرمیوں میں ملوث کم ظرف افراد کی جھوٹی تعریفیں بیان
کرتے ہیں ان کی من گھڑت خبریں تصاویر بنا کر چند ٹکے حاصل کر لیتے ہیں جبکہ
ان اتائی صحافیوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔بلکہ فیس بک وٹ سپ سے کسی کی
تحریر خبر اپنے اخبارات و رسائل اور چینل کو سینڈ کر دیتے ہیں اور اکثر و
بیشتر یہ خبریں الٹ پلٹ شائع ہوئی ہوتی ہیں اور روزانہ ایسی بے شمار خبریں
پڑھنے کو ملتی ہیں جن کے سر پاؤں نہیں ہوتے۔ایسے لوگوں کو صحافی بنانے میں
سب سے بڑا ہاتھ تعلیم کی کمی اور بیروزگاری اور جھوٹی شہرت کا ہے پھر اس
مکروہ دھندہ کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے مقامی اور لوکل اخبارات کا بڑا
ہاتھ ہے سب مقامی یا لوکل اخبارات ایک جیسے نہیں ہوتے بعض مقامی اور لوکل
اخبارات بہت اچھا کام کر رہے ہیں میں ان نام نہاد بلیک میلنگ اور جھوٹ
انتشار افراتفری پھیلانے والے اخبارات اور چینل کی بات کر رہا ہوں جن کو
گلی اور محلے کے باہر کوئی نہیں جانتا اور ان میں زیادہ تر صرف فیس بک اور
وٹ سپ تک محدود ہیں ان اخبارات/ چینل میں بڑے دلکش انداز میں نمائندگی کے
اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں کہ صحافت سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات
رابط کریں تعلیم تجربہ کردار گفتار اخلاق کی ضرورت نہیں نمائندہ کو پریس
کارڈ چینل کا لوگو مائیک ڈوری دی جائے گی نمائندہ بن کر باعزت روزگار
تنخواہ کمشن اور پرکشش مراعات حاصل کریں۔ بہت سے ان پڑھ بے روزگار اور منفی
سرگرمیوں میں ملوث نوجوان ان کے ہھتے چڑھ جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ بیروزگار
پھرنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کچھ تنخواہ تو ملے گی اور پھر نام نہاد اخبار
چینل کے مالک سیکورٹی پریس کارڈ بزنس کے نام پر ان سے ہزاروں روپے چھین
لیتے ہیں اور ان اتائی صحافیوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے کہ وہ یہ
بھی نہیں جانتے کہ خبر کیا ہوتی ہے ہماری ذمہ داری کیا ہے ہمیں کیا کرنا ہے
خبر حاصل کرنے کے کونسے ذرائع ہیں خبر کی تحقیقات کیسے کرنی ہے الزام علیہ
کا موقف کیسے لینا ہے اداروں سے وابستہ افراد سے کیسے گفت و شنید کرنی ہے
وغیرہ لیکن اتائی صحافی بس گلی محلے کے گھروں رشتہ داروں کو گلے میں پریس
کارڈ ڈال کر فوٹو سینڈ کر کے صحافی بن جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے اچھے بھلے
آدمی کے دل ودماغ میں خیال آنے کی دیر ہوتی ہے اگلے دن وہ صحافی ہوتا
ہے۔میرے پاس اکثر کئی نوجوان آتے ہیں کہ ہمیں بھی صحافی بننا ہے جب ان سے
پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی تعلیم کتنی ہے تو آگے سے جواب دیتے ہیں کہ انڈر
میٹرک یا اس بھی کم ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جائیں پہلے تعلیم حاصل کریں
پھر اس شعبہ میں آیئں تو وہ ایک دو روز بعد گلے میں پریس کارڈ لٹکا کر
آجاتے ہیں کہ دیکھو میں بیورو چیف یا ڈسٹرکٹ رپورٹر بن گیا ہوں ۔صحافت کیا
ہے اسے انگریزی میں,Journalism کہتے ہیں صحافت کا لفظ عربی زبان کے لفظ صحف
سے نکلا ہے صحف یا صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں۔بلکہ صحیفہ
نگاری اور نامہ نگاری کو اردو میں صحافت کہا جاتا ہے تمام اخبارات ورسائل
صحیفے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر محمد حسین شاہد نے اپنی مشہور کتاب، ابلاغیات، میں
لکھا ہے صحافت خبر ہے، اطلاع ہے، نامہ نگاری ہے۔ صحافت کا تعلق صرف عوام سے
نہیں بلکہ خواص اور سیاسی سماجی نمائندگان سے بھی ہے۔ صحافت کسی بھی معاملے
کے بارے میں تحقیقی معلومات صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر
قارئین ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام صحافت ہے۔جبکہ صحافت کا
پیشہ اختیار کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ایسے صحافی جو اس پیشہ کو مکمل
طور پر اپناتے ہیں یا اسے ذریعہ روزگار بناتے ہیں انھیںWorking کہا جاتا
ہے۔ اور جو صحافی وقتی طور پر یہ کام کرتے ہیں یا کسی ایک اخبار یا چینل سے
وابستہ نہیں رہتے بلکہ مختلف اخبارات میں مضامین فیچر کالم لکھتے رہتے ہیں
وہ آزاد صحافی ہیں یعنیFreelancer کہلاتے ہیں۔صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور
عوام کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ حکومت کا چوتھا اور
طاقتور ستون ہے لیکن بہت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ اتنے اہم شعبے کو بے
یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومت ایسے ڈمی نام نہاد اخبارات و رسائل
چینلز کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے ان کے ڈیکلریشن منسوخ کرے جو ان پڑھ
جاہل اور منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو صحافت کے شعبے میں لاکر صحافت
جیسے مقدس پیشے کی توہین کر رہے ہیں دوسری طرف مستند اعلی تعلیم یافتہ اور
ورکنگ جرنلسٹ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور یہی اتائی صحافی سرکاری
ملازمین کو ہراساں کر کے ناجائز کام کراتے ہیں حکومت دیگر شعبوں کی طرح
صحافیوں کے لیے بھی تعلیمی معیار مقرر کرے اور تمام اخبارات جرائد چینلز کو
پابند کرے کہ وہ مطلوبہ معیار کے مطابق اپنے اداروں میں نمائندہ/نامہ
نگار/رپورٹر (صحافی)مقرر کریں۔حکومت گاؤں کے چودھری کی طرح ہی کام کر لے تو
یہ اتائی صحافی جن میں مراثیت بھی آچکی ہے بہت جلد کنڑول ہو سکتے ہیں۔ لفظ
میراثی کی تشریح و وضاحت بیان کرتا چلوں میراثی کا لفظ میراث سے ہے جس کے
معنی وراثت کے ہیں اردو لغت میں میراثی کے معنی مطلب مفہوم (ورثہ پانے
والا)کے ہیں۔ غلام اکبر ملک نے اپنی کتاب پاکستان کی سیاہ فام اقوام میں
لکھا ہے۔ میراثی کوئی قوم اور ذات نہیں میراثیت ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی
میں بھی طاری ہو سکتی ہے بے جا تعریف و توصیف میراثیت کا سب سے بڑا وصف
ہے۔میراثی کا لفظ باعث شرمندگی نہیں آج کل تو ان لوگوں کی بہت قدر ہے اور
یہی لوگ کامیاب ہو رہے ہیں۔لفظ میراثی شرمندگی مذاق یا گالی نہیں نہ یہ
کوئی رنگ قوم قبیلہ یا نسل ہے بلکہ یہ ایک کیفیت ہے اس کے باوجود بھی اگر
کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں۔کسی گاؤں کے چودھری کے
پاس ایک خانسامہ تھا جو بہت اچھے کھانے بنانے اور مہمانوں کو پیش کرنے میں
ماہر تھا جس پر چودھری کے مہمان کھانے کے بعد اس کی پیشکش سے خوش ہوتے اور
اسے انعام و اکرام بھی دیتے اور اس کی تعریف بھی کرتے جس سے چودھری بھی خوش
ہوتا کہ ایک دن کسی مہمان نے چپکے سے چودھری کے خانسامہ کو کہا کہ آئیں آپ
کو صحافی بناتا ہوں آپکی چودھری سے زیادہ عزت و وقار ہوگا لوگوں پر آپ کا
زیادہ رعب و دبدبہ اور شان و شوکت ہو گی اس نے کہا کہ میں تو پڑھا لکھا
نہیں اس نے کہا کوئی بات نہیں میں سب سنبھال لوں گا اور اسے کسی لگڑ بھگڑ
اخبار کا پریس کارڈ بنوا دیا تو پھر کیا تھا وہ لگا گاؤں میں لوگوں پر رعب
و دبدبہ ڈالنے کہ میں یہ کر دوں گا میں وہ کر دوں گا کسی پر رعب اور کسی کم
ظرف کی بیجا تعریف و توصیف کر کے روپے پیسے بٹورنے لگا تنگ آکر لوگوں نے
چودھری سے شکایت کی چودھری چونکہ انصاف پسند اور اپنی رعایا کی خیر خواہی
کرنے والا تھا اور گاؤں کے تمام معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کر دیتا جس کی
وجہ سے ناصرف گاؤں بلکہ سرکاری و نجی اداروں میں بھی چودھری کا عزت و
احترام کیا جاتا تھا لیکن اس اتائی صحافی جس میں مراثیت بھی سرایت کر چکی
تھی کہاں چودھری کی بات ماننے والا تھا بہرحال چودھری نے سمجھانے کی کوشش
کی کہ یہ کام ان پڑھ اور آپ جیسے لوگوں کا نہیں یہ بہت مقدس اور اعلی پیشہ
ہے یہ عوامی مفاد کے لیے کوشاں رہنے مظلوم و بے سہارا لوگوں کی آواز بلند
کرنے کا کام ہے اور یہ آپ جیسے مفاد پرست اور منفی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں
کا نہیں اس سے باز آجائیں اور اپنا خانسامہ والا کام کریں لیکن اس نے جواب
دیا چودھری صاحب مجھے ایک سو ایک داؤ پیچ آگئے ہیں اب آپ میرا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے جس پر چودھری نے کہا میرے پاس صرف ایک ہی دا ہے میں زیادہ دا
ؤپیچ نہیں جانتا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کا بوریا بستر گول کرکے
گاؤں سے باہر نکال دو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری جس پر چودھری کے حکم
کی تعمیل کی گئی اور گاؤں والے اس اتائی صحافی سے محفوظ ہو کر امن و امان
سے ہنسی خوشی رہ رہے ہیں اور چودھری کو دعائیں دے رہے ہیں کہ آپ نے ایک
فتنہ پرور شخص سے اپنی رعایا کو محفوظ کر لیا ہے۔جبکہ وہ اتائی صحافی اب
گاؤں سے باہر چودھری کے دوستوں اور ملنے والوں سے یہی پوچھتا پھر رہا ہے کہ
مجھے کیوں نکالا۔۔اس کالم کا سیاست سے تعلق نہیں۔بشکریہ سی سی پی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|