غربت کی اصطلاح سے مراد وہ ریاست یا حالت ہے جس میں لوگوں
یا برادریوں کے پاس کم سے کم معیار زندگی کے لیے مالی وسائل اور ضروریات کی
کمی ہوتی ہے۔ یوں ان کی بنیادی انسانی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ غربت
زدہ لوگ اور خاندان مناسب رہائش، صاف پانی، صحت بخش خوراک, تعلیم اور طبی
امداد کے بغیر رہتے ہیں۔ ہر قوم کے پاس غربت کی لکیر کا تعین کرنے اور اس
کے کتنے لوگ غربت میں زندگی گزارنے کا حساب لگانے کے اپنے معیارات ہوسکتے
ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غربت ایک سماجی اقتصادی حالت ہے جو متعدد
عوامل کا نتیجہ ہے — نہ صرف آمدنی۔ ان عوامل میں نسل، جنسی شناخت، جنسی
رجحان، اور تعلیم تک بہت کم رسائی، دوسروں کے علاوہ شامل ہیں۔
عالمی بینک کی طرف سے پاکستان میں غربت 39.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جس میں
نچلی درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 3.2 امریکی ڈالر فی یوم ہے، اور 78.4
فیصد اوپری درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 5.5 امریکی ڈالر فی دن استعمال
میں لاتے ہیں۔
ہر دور میں فقر و افلاس انسانی زندگی کا المیہ رہا ہے اس کے خاتمے کیلئے ہر
دور میں غربت میں پسا ہوا طبقہ اپنے لئے آواز بلند کرتا رہا ہے بہت سی
تحریکیں بھی معرض وجود میں آئیں۔ غربت و افلاس کو مٹانے کے ’’نعرہ بھی لگتے
رہے مگر غربت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک ایسا طبقہ اشرافیہ
معر ض وجود میں آ چکا ہے جو غربت کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ
نہیں چاہتا کی غربت کو ختم کیا جائے۔
بلند افراطِ زر اور کم یا منفی شرح نمو کی یہ صورتحال آنے والے سالوں میں
بھی جاری رہے گی اور مذید غربت بڑھے گی۔ محنت کش طبقے کے لئے معیشت کی اس
مشکل زبان کا آسان مطلب مزید تنگی، محرومی، مہنگائی و بیروزگاری ہی ہے۔ عام
لوگوں کی زندگیوں میں ذلالت اور اذیت کی رہی سہی کسر دوبارہ سے شدت پکڑتی
لوڈ شیڈنگ ہے جس سے زندگی اجیرن ہوع کر رہ گئی ہے۔ اس ملک میں زندگی اس قدر
تلخ ہو چکی ہے کہ نوجوان پاکستان میں رہنے کی بجائے سمندرمیں ڈوب مر جانے
کوترجیح دینے لگے ہیں۔ اور اسکی سب سے بڑی مثال یونان میں ڈوبنے والی کشتی
ہے جس میں درجنوں پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بنیٹھے۔
اگر غور کریں تو طرزِ حکمرانی، حکومتیں اور افراد بدلنے کے باوجود سرمایہ
داری کے ان (وفاقی و صوبائی) بجٹوں کی اساس وہی رہتی ہے۔ اس معاشرے کو
انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لئے تعلیم، علاج اور ترقیاتی منصوبوں پر
جو اخراجات درکار ہیں ان کا عشرِ عشیر بھی عوام پر خرچ نہیں کیا جاتاے۔
حکومت کی طرف سے جی ڈی پی کا بمشکل 3 سے 4 فیصد ہی ان بنیادی انسانی
ضروریات پہ خرچ ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں ایک نسبتاً صحتمند، پڑھا لکھا اور مہذب
معاشرہ قائم کرنے کے لئے اس سے کم از کم دس گنا زیادہ وسائل درکار ہیں۔ جس
کے بارے میں اس نظام کی حدود و قیود میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ایسے میں
سرمایہ داری کا قیام اور محنت کش عوام کے لئے سراسر گھاٹے اور خسارے کا
سودا ہے۔ معیشت کو نجی ملکیت، منڈی اور منافع کی جکڑ سے آزاد کروا کے ہی
انسانی ضروریات اور سماجی فلاح و بہبود کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ اور اس
تاریخی فریضے کی ادائیگی سرمایہ داری کے انقلابی خاتمے سے جڑی ہوئی ہے۔
بھوعک مٹاؤ کے نعرہ مستانہ‘‘ کی بدولت مختلف ادوار میں کئی لوگوں کی لیڈرشپ
کی دھاک بھی قائم رہی۔ بڑے بڑے شعرا، علماء، فلاسفرز اور حکماء کے اعصاب پر
بھی ’’روٹی‘‘ سوار نظر آتی ہے۔ غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی
دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا
کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں تو خوشحال زندگی خواب معلوم ہوتی ہے۔
پاکستان میں غریب لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ کام کرنے کے لیے صحت مند نہیں
ہیں اور ان کے پاس کھانا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہم رقم یا اپنا وقت
دے کر ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب آپ پاکستان کے دیہی علاقوں کا
دورہ کرتے ہیں تو یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کس طرح کے حالات زندگی میں رہتے
ہیں۔اوروہ اپنی زندگی کے شب و روز کیسے گزارتے ہیں یہ وہ ہی جانتے ہیں۔
غربت ایک انفرادی تشویش کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر سماجی مسئلہ بھی ہے۔
انفرادی یا گھریلو سطح پر، تکمیل کو پورا کرنے کے قابل نہ ہونا متعدد
جسمانی اور ذہنی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ سماجی سطح پر، غربت کی بلند شرح
معاشی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے اور جرائم، بے روزگاری، شہری زوال، تعلیم
اور خراب صحت جیسے مسائل سے منسلک ہو سکتی ہے۔
حکومتیں اکثر افراد، خاندانوں اور برادریوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کے
لیے سماجی بہبود کے پروگراموں کو جگہ دیتی ہیں۔ کچھ ممالک میں دوسروں کے
مقابلے میں مضبوط فلاحی ریاستیں (سوشل سیفٹی نیٹ) ہیں۔ امریکہ، مثال کے طور
پر، بہت زیادہ انفرادیت پسند ہوتا ہے اور فلاحی پروگراموں سے گریز کرتا ہے۔
اس کے مقابلے میں یورپی ممالک کے پاس فلاحی پروگراموں اور ضرورت مندوں کے
لیے امداد کا ایک وسیع پروگرام ہے۔ جبکہ ہمارییہاں ایسے سماجی منصوبے جو
غربت کیلئے کار آمد ثابت ہوں دور دور تک نہیں دکھائی دیتے۔ ہماری حکومتوں
کی عیاشیاں، اور وزراء کی فوج ظفر موج اور انکی آسائشیں جن میں مفت،
پیٹرول، گاڑیاں، بجلی کے بل اور بھاری بھرکم تبنخواہیں اور سیکیورٹی پر
مامور درجنوں سرکاری خرچے پر پلنے والا عملہ ہے جس پر سالانہ اربوں روپے کے
اخراجات ہوتے ہیں۔
|