6/دسمبر1992کوبابری کی شہادت ہوئی،اس کےبعد اس مسجدکے
حصول یابی کیلئے مسلم پرسنل لاء بورڈنے قانونی کارروائی کیلئے پیش رفت کی
تھی۔قریب27 سال تک مسلم پرسنل لاء بورڈکی قانونی ونگ نے اس مقدمے کی پیروی
کی،سال2019 میں اس عظیم شہادت کا فیصلہ آیا،جس میںبابری مسجدکی املاک کو
مسلمانوں سے چھین لیاگیا۔اس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈنےسپریم کورٹ کے
فیصلے کو قبول کرتے ہوئے کہاکہ ہم بھارت کے آئین کو قبول کرتے ہیں،یہاں کی
عدلیہ کے فیصلے کو مانتے ہوئےاس معاملے کو یہیں پر ختم کرتے ہیں۔اس کے کچھ
عرصے بعد طلاق ثلاثہ کا مدعہ کھڑاہوا،اس معاملے میں بھی مسلم پرسنل لاء
بورڈنے اس مقدمے کی پیروی کی،عدالت میں اس تعلق سے شرعی دلائل پیش کئے،پھر
اس کے باوجود بھی بھارت کی حکومت نے طلاق ثلاثہ پر مستقبل قانون
بنادیا،مسلم پرسنل لاء بورڈنے اس معاملے میں بھی اپنے ہتھیار ڈال دئیے۔مودی
حکومت نے بھارت میں این آر سی،سی سی اے نافذکرنے کی پہل کی تو اُس وقت بھی
مسلم پرسنل لاء بورڈنے مسلمانوں کوحکمت سے کام کرنے کی نصیحت کی،اس کے
بعدحجاب کا مسئلہ پیش آیاتو اس معاملے کی قیادت کرنے کا فیصلہ مسلم پرسنل
لاء بورڈنے کیا،عدالت میں ان کی پیش رفت کو کوئی اہمیت نہیں ملی،معاملہ اب
بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔اب مسلم پرسنل لاء بورڈکے سامنے یونیفارم سیول
کوڈکا معاملہ ہے،جس کیلئے وہ لاء کمیشن کے سامنے اپنی دلیل پیش کرچکی
ہے،ساتھ ہی ساتھ کانگریس کے قومی صدرملیکارجنا کھرگے کے سامنے بھی یو سی سی
کے تعلق سے بات کرتے ہوئے اس کی مخالفت کرنے کی گزارش کی ہے۔آل انڈیامسلم
پرسنل لاء بورڈنے جس طرح سے ملت اسلامیہ کے ان اہم مدعوں کو اٹھایاہے اُس
میں کسی بھی مدعے پر انہیں کامیابی نہیں ملی ہے نہ ہی کسی عدالت میں ان کی
طرف سے لڑے گئے مقدموں میں کامیابی ملی ہے،نہ ہی کسی حکومت نے ان کے
مطالبات پر غور کرنا ضروری سمجھاہے۔اس وقت یو سی سی کا مدعا مرکزی حکومت نے
اٹھایاہے اور اس قانون کو جلد ازجلد نافذکرنےکی بات رکھی جارہی ہے،ایسے میں
جس کے گھرمیں دعوت ہو اُس کے گھرجانے کے بجائے دوسرے کے گھرمیں پکوان
کیساہو اس کی ترغیب دی جارہی ہے،ہوناتویہ چاہیے تھاکہ مسلم پرسنل لاء
بورڈکے ذمہ داروں کو راست طورپر وزیر اعظم،وزیر داخلہ اور وزیر قانون سے
رابطہ کرناتھا،انہیں یو سی سی کی مخالفت کے تعلق سے اپنی بات پیش کرنی
تھی۔مگر اس کام کو انجام دینے کے بجائےمسلم پرسنل لاء بورڈکے ذمہ داروں نے
ایک طرح سے اپنے آپ کو کانگریس کی ونگ کی طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور
اپنی ملاقاتوں کا سلسلہ کانگریس ودیگر مقامی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں تک
ہی محدودرکھاہے۔ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈایک ناکارہ
ادارہ ہے،نہ ہی یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہماری بات ہی صحیح ہے،بلکہ ہزاروں لوگ
جو وسیع سوچ رکھتے ہیں اُن کا کہناہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈکو اپنی حکمت
میں تبدیلی لانے کیلئے کمربستہ ہوناپڑیگا۔مسلسل ناکامیابی کے باوجود مسلم
پرسنل لاء بورڈصرف مذمتی بیانات اور مشورے جاری کرنےوالاادارہ بن
چکاہے،جبکہ کئی دوسری قوموں کے کئی ادارے ایک ہاتھ آگے نکل چکے ہیں۔اگر
مسلم پرسنل لاء بورڈکے تعلق سے دانشورطبقہ کوئی تنقید کرتاہے تو اس پر
تنقیدکرنےوالے کو ہی نشانہ بنایاجاتاہے،مانوکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر
تنقیدکرنا گناہ عظیم ہے۔اب جبکہ پانی سرسے اوپرجاچکاہے تو مسلم پرسنل لاء
بورڈکے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے طور طریقوں میں تبدیلی لائیں،جب
بورڈیہ مانتاہے کہ وہ بھارت کے تمام مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے اور
شریعت کی بقاء کیلئے آوازاٹھانےوالامضبوط ادارہ ہے تو بورڈکے ذمہ دار راست
طورپر مودی کے سامنے بات کریں،مودی ہویاامیت شاہ وہ بھارت کی سب سے بڑی
اقلیتوں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ان حالات میں مسلم پرسنل لاء بورڈکے ذمہ داران
مسلمانوں کو یو سی سی کے نقصانات وفائدے سمجھانے کے بجائے بھارت کی حکومت
کو اپنا موقوف سمجھائیں،تاکہ بھارت میں اس طرح کے اندھے قانون نافذ نہ
ہوپائیں۔ |