ایمانداروں کا پاکستان

پچھلے پورے سال میں 250ملی لیٹر بارش ہوئی مگر اس سال فقط ایک دن میں 290ملی لیٹر۔بارش برسنے کا کئی سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔لیکن بارش نے اسی پر قناعت نہیں کی مسلسل ہورہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پانی کے نکاس کی صورت حال پچھلے سالوں سے بہتر رہی۔ البتہ اتنی بارش کیوجہ سے کاروبار زندگی مفلوج رہا اور ا بھی تک ہے۔میں ایک مڈل کلا س کا شخص ہوں، جی ہاں اس مڈل کلاس کا کہ اس دور میں جس کی کشتی اور جس کی نبضیں دونوں ڈوبتی جا رہی ہیں۔ مہنگائی نے جس کے کس بل نکال کر اسے بے حال بلکے بد حال کر دیا ہے۔ اپنا بھرم رکھنے کے لئے ہر دم سستی چیزوں کی تلاش میں ہوتا ہوں۔سبزیاں اور پھل ہمیشہ منڈی سے خریدتا ہوں۔ یونیورسٹی سے واپس آتے تھوڑا سا راستہ بدل کر یہ کام کر لیتا ہوں اس طرح پٹرول کا زیادہ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ان بارشوں میں لاہور وینس بننے کی ناکام کوشش میں اپنا حلیہ بگاڑ چکا تھا۔ ایک آدھ دن میں پانی توکسی حد تک نکل گیا ہے مگر اس کے بعد کے مضمرات ابھی جاری ہیں۔ کیچڑ کئی جگہ اتنا وافر ہے کہ گزرو تو بعد میں خود کو، کپڑوں کو اور بوٹوں کو صاف کرنے میں گھنٹوں صرف ہوتے ہیں۔اس کیچڑ کو ختم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔گو صفائی کی صورت حال میں ہر سال بہتری آتی ہے،پہلے کی نسبت پانی کی نکاسی بھی بہتر ہے مگر بعض جگہیں عادت سے مجبور ہیں۔ وہاں کیچڑ اور گند نہ ہو تو ان کی شان میں فرق پڑتا ہے۔

ہماری منڈیاں بھی کچھ ایسی عالی شان جگہیں ہیں کہ گندگی اور تعفن کے بغیر ان کا منڈی پن سجتا ہی نہیں۔وہاں کام کرنے والے اور روز جانے والے تو اس گندگی اور تعفن کے اس قدر عادی ہیں کہ انہیں محسوس نہیں ہوتا لیکن بارش کے بعد اس تعفن اور کیچڑ کو وہ چار چاند لگتے ہیں کہ وہ روز مرہ کے لوگ بھی منہ پر رومال رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن بارش کے بعد کچھ دن میرے جیسے بندے کے لئے وہاں جانا ممکن نہیں رہتا۔کچھ سبزیوں کی ضرورت تھی ۔ سو منڈی کی بجائے میں گھر کے قریب ایک آبادی کے بازار میں لینے چلا گیا۔آبادی کو جانے والی سڑک پر شور مچا تھا۔ ایک یونین کونسل کا ٹرک تجاوزات کے خاتمہ مشن پر تھا۔لوگوں کا سامان اٹھا اٹھا کر گاڑی میں ڈالا جا رہا تھا، یونین کونسل کے دس بارہ مزدور اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ۔ گاڑی سامان سے لدی خوف و ہراس پھیلاتی مسلسل آگے بڑھ رہی تھی۔ لوگ آوازیں دے دے کر دوسروں کو بتا رہے تھے، کہ بچو، بچو ٹرک آ رہا ہے۔لوگ پھرتی سے اپنے سامان کو وقتی طور پر ملحقہ پلاٹوں میں منتقل کر رہے تھے۔ میں بھی ان حالات میں غریبوں کے لئے ہمدردی کے جذبات لئے اپنی منزل کو گا مزن تھا۔ غریب آدمی کا ٹھیلا ہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے ،وہ بھی چھن جائے تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔

مین روڈ سے ایک سڑک بائیں جانب مڑ رہی تھی ۔مجھے اسی سڑک پر جانا تھا۔ میں اس سڑک کو مڑا۔ دوسری دکان سبزی والے کی تھی۔مین روڈ سے بمشکل پندرہ سولہ قدم کے فاصلے پر۔ میں رکا، جو کچھ چائیے تھادکاندار کو بتایا اور ساتھ ٹرک کا بتا کر اسے کہا کہ پہلے سامان کو دائیں بائیں کر لے کہ ٹرک آ رہا ہے۔ دکاندار ہنس کر بولا، پرواہ نہ کریں آپ اطمینان سے اپنا سامان لیں ، ٹرک والوں سے میں نپٹ لوں گا۔میں سبزیاں لے رہا تھااور پریشانی سے ارد گرد موجود ٹھیلوں کو دیکھ رہا تھا، جنہیں ٹرک کا کوئی خوف نہیں تھا حالانکہ ہر گزرنے والا انہیں ٹرک کا بتا کر سامان ہٹانے کا کہہ رہا تھا۔بعض ٹھیلے تو مین روڈ سے چند انچ اندر تھے مگر انہیں بھی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں ان لوگوں کی بے فکری اور لاپرواہی کے بارے سوچ رہا تھا کہ ٹرک آ گیا۔ٹرک کے مزدوروں نے اس بازار کی طرفٖ دیکھا بھی نہیں اورچوک سے آگے گزر کر اپنی کاروائی دوبارہ شروع کر دی ۔ میں قدرت کے اس کمال پر غور کر رہا تھا کہ یہ کیا معمہ ہے، کہ کچھ لوگوں پر برق گرائی جا رہی ہے اور کچھ پر رحمتیں جاری ہیں۔یہ تو خدائی صفت ہے ۔ لیکن ہمارے سرکاری اہلکار اور تمام اہل اقتدار بھی تو ہر جگہ خدا بنے بیٹھے ہیں، کوئی انہیں پوچھ بھی نہیں سکتا۔

میں نے سبزی لی، پیسے د ئیے۔ سبزی گاڑی میں رکھی اور جاتے جاتے سبزی والے سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا معاملہ کہ ٹرک نے تم لوگوں کو پوچھا ہی نہیں ، حالانکہ تم بھی اتنے ہی گنہگار ہو جتنے وہ کہ جن کا سامان اٹھا لیا گیا ہے۔ کہنے لگا کہ ہم انہیں پیسے دیتے ہیں۔ جس دن انہوں نے اس بازار کا چکر لگانا ہوتا ہے ۔ اس دن آپ ہمارا بازار دیکھیں۔ اس قدر صفائی اور قانون کی پابندی آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی۔ہوتا یوں ہے کہ وہ پہلے اطلاع بھیج دیتے ہیں۔ ہم سارے بازار کے لوگ ان کے لئے خرچہ اکٹھا کر لیتے ہیں۔ وہ آتے اور خرچہ لے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ آپ کے بازار کا چکر ہو گا کہ نہیں۔ وہ اگر کوئی پریشر نہ ہو تو ہمارے بازار کو آتے ہی نہیں، جیسے آج گزرے ہیں ویسے ہی گزر جاتے ہیں۔ اور اگر پریشر ہو تو بتا دیتے ہیں، ہم اسی حساب سے تیار ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ویسے بھی جن سے پیسے لئے ہوں اس کا سامان نہیں اٹھاتے۔سامان ان کا اٹھاتے ہیں جو پیسے نہیں دیتے یا انہیں دھمکاتے ہیں کہ فلاں سیا ست دان میرا عزیز ہے اور فلاں کرنل میرا چچا ہے یا وہاں کا ایس پی یا کمشنر ابھی تم سے بات کرتا ہے۔ بے وقوفوں کو یہ نہیں بتا کہ اس ملک میں سب سے زیادہ اہمیت جناح کی ہے ۔ کسی کو بلیک میل کرنا ہو، کسی کو فائدہ دینا ہو ، کوئی ناجائز کام کروانا ہو ، ہر پریشانی کا حل قائد اعظم۔ جسے یہ بات سمجھ آ گئی وہ پاکستان کا کامیاب تریں آدمی ہے۔میں نے پوچھا کبھی ایسا ہوا ہو کہ جو انہوں نے کہا ہو ، اس سے کچھ الٹ ہو گیا ہو اور آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہو۔نہیں نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پچھلے کئی سال سے ہمارا ان کا واسطہ ہے۔ کئی لوگ آئے اور کئی بدلے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں یہ لوگ بڑے ایماندار ہیں۔ کوئی ہیرا پھیری نہیں کرتے۔بہت خوب میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور سر جھکا کر اس ایمانداری کی تعریف بھی کی اور داد بھی دی۔ ماشا اﷲپاکستان ایسے ہی ایماندار لوگوں کے دم سے آج تک قائم دائم ہے۔ ملک کے ہر شعبے اور ہر ادارے میں ایسی ہی ایمانداری رائج ہے۔شاید لوگ بھی ایسے ہی رہیں گے، ادارے بھی ایسے ہی رہیں گے اور پاکستان بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500931 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More