شدید موسم گرما کے بعد جب سورج نے خوب اہل زمین پر قہر
توڑ لیا انسانوں کے ساتھ چرند پرند ہر ذی روح نے مدد مدد پکارتے ہوئے خدا
سے بارش کی مانگ کی تو خدا ئے رحیم کریم کو دھرتی کے باسیوں پر ترس آہی گیا
صبح چھٹی کا دن تھا ساری رات بارش خوب چھم چھم برسی موسلا دھار بارش کا
سلسلہ دن چڑھے بھی زورو شور سے جاری تھا باقی لوگوں کی طرح میں بھی گرمی کا
ستایا ہوا تھا آسمان پانی کے بادلوں سے بھرا ہوا تھا سیاہ سرمئی بادلوں نے
آسمان کو ڈھک دیا تھا رات بھر کی تیز بارش کی وجہ سے درجہ حرارت گرمی سے
خوشگوار زو ن میں داخل ہو چکا تھا بارش تھوڑی سست لیکن تیز ہوا ئیں اپنے
جوبن پر تھیں کیونکہ ساری رات بارش ہوئی تھی اِس لیے گردوغبار کانام و نشان
تک نہ تھا آندھی نما ہوا کے جھونکے مشام جان کو خو شگوار ٹھنڈک سے بھر پور
زیست آفرین سرور آمیز کیفیت سے دوچار کر رہے تھے آسمان پر آوارہ بادلوں کی
دھمال آوارہ بادلوں کے غول در غول فضا میں تیرتے نظر آرہے تھے کیونکہ ہوا
خوشگوار ٹھنڈی ہو چکی تھی میں نے آنکھیں بند کر کے آسمان کی طرف منہ کر کے
لمبے لمبے کیف انگیز سانس اپنے پھیپھڑوں میں بھرنے شروع کر دئیے تسنیم صبح
کے تازہ خوشگوار ہوا کے جھونکوں نے پھیپھڑوں کے ساتھ جسم و جان کو نئی
تازگی سے ہم آہنگ کر ناشروع کر دیا میں زیادہ سے زیادہ تازہ صاف ہوا کو
اپنے قلب و جان کا حصہ بنانا چاہتا تھا میں گھر کے برآمدے میں کھڑا لمبے
لمبے سانس لے رہا تھا میرے سامنے جامن مالٹے کے درخت تیز ہواؤں کے دوش پر
مست ہاتھیوں کی طرح دھمال ڈال رہے تھے رات بھر کی بارش کے بعد درختوں کے
پتے سر سبز شاداب ہو کر تالیاں بجا کر مون سون کی ہواؤں کا استقبال کر رہے
تھے بلند و بالا درختوں کے پتے گلاب اور موتیوں کے پودے بھی تازگی اور
شادابی کا پیر ہن بن کر اپنی خوشی کا بھرپور اظہار کر رہے تھے بارش کے مزاج
میں نشیب و فراز تھے اچانک تیز ہوتی تو لگتا آسمان نے کوئی پانی کے لاکھوں
ڈول بھر بھر کر زمین کی طرف پھینک رہا ہے پھر بارش سست ہو تی تو بارش کے
ننھے منے قطرے سفید موتیوں کی طرح تیز ہوا کے دوش پر زمین کی طرف رقص کرتے
نظر آتے ہیں میں طویل سانسوں کے عمل میں مصروف تھا اِسی دوران شریک حیات
خاموشی سے شیشے کے جگ میں املی آلو بخارہ اور فالسے کا شربت بنا کر رکھ گئی
شیشے کے جگ میں گلابی سرخ جوس دیکھ کر کیف و سرور کا نیا احساس جاگا میں
آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا شیشے کے گلاس کو جوس سے بھرا اور رات بھر کے
پیاسے لبوں کو شیریں جوس سے تر کر کے املی آلو بخارے کے ساتھ فالسے نے حشر
سا برپا کر دیا تھا میں خوب سرور سے اپنے گلے کو منفرد ذائقے سے تر کرنے
لگا ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس شروع کیا تو گرمی کے مارے جسم نے شکریئے کے
احساس کے ساتھ نئی دنیا سے روشناس کرانا شروع کر دیا میں مشروب فرحت قطرہ
قطرہ نوش کر رہا تھا اِس طرح خوشگوار موسم اور مون سون کی برسات سے بھی لطف
اندوز ہو رہا تھا کہ دروازے پر آکر کسی نے دستک دی میں اِس ٹارچر کے لیے
بلکل بھی تیار نہیں تھا بادل نخواستہ دروازے کی طرف جا کر دروازہ کھولا
باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی میں ایک چھوٹے قد کے بوڑھے کے ساتھ ایک طویل
قامت خوبصورت بیٹا کھڑے تھے مجھے دیکھتے ہی داڑھی والے بزرگ نے بے تکلفی سے
میرا نام اور کہا آپ نے یقینا مجھے نہیں پہچانا کیونکہ میں بہت سالوں کے
بعد آپ سے ملنے آیا ہوں بولا تو آشنائی کا احساس میرے دماغ کو روشن کر گیا
میں بے ساختی بولا او چھوٹو یہ تم ہو اِسی دوران پیچھے ہٹ کر بولا آؤ یار
تم بہت دنوں بعد آئے ہو ہم آکر برآمدے میں بیٹھ گئے تو ہمیشہ کی طرح چھوٹو
سینہ تان کر بولا جناب آخر کار میں چھوٹو سے بڑا ہو گیا ہوں پروفیسر صاحب
آپ مجھے کہا کر تے تھے ہیرو بننے لیے قد کی نہیں جذبے جنون کی ضرورت ہوتی
ہے بڑے کام کی ضرورت جہاں پر قد شکل و صورت بے معنی ہو جاتی ہے میں نے
دونوں کو شربت پیش کیا جب دونوں شربت سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو مجھے پچیس
سال پہلے کے دن یاد آگئے جب میں سردیوں کی چھٹیوں میں اپنے گھر جایا کر تا
تھا وہاں مجھے بہت سارے لوگ ملنے آتے جن میں جمیل چھوٹو بھی ہو تا تھا اِس
کا قد بڑی مشکل سے پانچ فٹ تھا میڑک پاس سمجھ دار چھوٹا سا زمیندار تھا بات
کر نا جانتا تھا جب میرے پاس آیا تو جوان تھا لوگوں کے طعنوں پر پوچھتا
پروفیسر صاحب لوگ مجھے بے کار اور چھوٹو سمجھ کر لفٹ نہیں کرا تے میرے
چھوٹے قد کی وجہ سے کوئی رشتہ بھی نہیں دیتا دوستی بھی نہیں کر تے مجھے
حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں دھتکارتے ہیں اپنے حلقے میں بھی شامل نہیں کرتے
میں زمانے کو کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہوں میں اپنے چھوٹے قد کی تہمت سے
آزاد ہو نا چاہتا ہوں بیچارہ اپنی کسمپر سی کا رونا خوب روتا ایک دن بہت
رویا کہ میں کیا کروں تو میں نے مشورہ دیا یار تم کوئی عظیم کام کرو جو بڑے
قد والے نہیں کرتے عظمت تمہارے قدموں کی لونڈی بن جائے گی میری بات چھوٹو
نے پلے باندھ لی اب وہ اِس تلاش میں تھا کہ کوئی ایسا موقع ملے کہ میں
لوگوں کے سامنے سر اٹھا کر جی سکوں پھر قدرت نے اُسے موقع دے دیا اُس کے
چچا کی بیٹی جنوبی پنجاب میں جس کی شادی ہوئی تھی اُس کا خاوند کسی حادثے
کا شکار ہو کر دو بچوں کو بھی چھوڑ گیا سارا خاندان پریشان تھا کہ جوان
بیوہ کس طرح زندگی کا طویل راستہ طے کر ے گی یہاں پر چھوٹو نے خود کو پیش
کر دیا چچا نے اپنا خون سمجھ کر رشتہ قبول کیا اور چھوٹو کا نکاح اپنی بیٹی
سے کردیا اور جا کر جنوبی پنجاب میں شفٹ ہو گیا اِ س طرح میرا چھوٹو سے
رابطہ منقطع ہو گیا آج کتنے سالوں بعد چھوٹو جوان بیٹے کے ساتھ میرے سامنے
تھا بتانے لگا میری بیوی کے پاس پہلے سے ایک بیٹا اور بیٹی تھی اﷲ نے دو
بیٹے مجھے مزید دے دئیے اب میں نے خوب دل لگا کر محنت کی اور ساری توانائی
بچوں کی تعلیم و تربیت پر لگا دی اﷲ نے مجھے اور میری بیوی کو نیت کا پھل
خوب دیا بڑا بیٹا فوج میں آفیسر جبکہ چھوٹا بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے جب بیٹے
کی پاسنگ آؤٹ ہوئی اور بیٹے نے مجھے وردی میں سلیوٹ مارا تو مجھے لگا میں
چھوٹو نہیں بڑا ہو گیا ہوں اب میری سارے خاندان اور شہر میں عزت ہے لوگ
مجھے چھوٹو نہیں کپتان کا باپ ڈاکٹر کا باپ کہہ کر بلاتے ہیں چھوٹو دیرتک
اپنی کامیابیوں کی داستان سناتا رہا پھر بولا میرابیٹا چند دن پہلے آپ کی
کتاب گھر لے کر آیا اِس کو روحانی کتابوں کا بہت شوق ہے میں نے جب بتایا کہ
آپ میرے دوست ہیں تو ہم ملنے آپ کے پاس آگئے دیر تک بیٹھنے کے بعد جب چھوٹو
جانے لگا تو میں گرم جوشی سے بغل گیر ہو کر بولا یار تم چھوٹو نہیں معاشرے
کے وہ ہیرو ہو جن کے دم سے بانجھ معاشرے قائم ہیں ۔
|