اسرائیل ، انسانی حقوق اور پاکستان

اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53ویں اجلاس میں پاکستان بارے انسانی حقوق کے حوالہ سے رپورٹ پر اسرائیل کی جانب سے ایسا ردعمل دیا گیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ اِسرائیل کی جانب سے پاکستان بارے مطالبات کاخلاصہ کیا جائے تو ان مطالبات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ نمبر ایک:پاکستان میں سیاسی گرفتاریوں کو بند کیا جائے۔ نمبر دو: پاکستان میں ہم جنس پرستی کی اجازت دی جائے۔ نمبر تین: توہین مذہب ،توہین رسالت، مقدس ہستیوں کی توہین بارے قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔ آئیے سب سے پہلے ان تینوں پوائنٹس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ امسال ماہ جنوری میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 میں ترمیم کی ۔ 298A میں مقدس ہستیوں جن میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرامؓ و اہلبیت ؓ و امہات المومنینؓ کی توہین کی سزا تین سال کو بدل کر عمر قید جو دس سال سے کم نہ ہوگی سے تبدیل کردیا گیا۔اس وقت دنیا میں پاکستان اور اسرائیل ہی دو ایسی ریاستیں ہیں جو مذہب کے نام پر وجود میں آئیں۔ اور اسرائیل تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے کا نام تھا، جس نام کی بناء پر یہودیوں نے فخریہ طور پر اپنی ریاست کا نام اسرائیل رکھا ہوا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل جیسی کٹر مذہبی ریاست کو اسلامی جموریہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بنائے گئے قانون جس سے دین اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کی توہین پر پہلے سے موجود قانون میں سزائوں میں اضافہ سے کیا تکلیف ہورہی ہے۔ کیا اسرائیلی ریاست یہ برداشت کرسکتی ہے کہ خدانخواستہ انکی ریاست میں یہودیوں کے نزدیک مقدس ترین ہستیوں حضرت داود، علیہ اسلام، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت یعقوت علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام و دیگر انبیاء کی توہین کی جائے۔ اسرائیلی ایسا بالکل برداشت نہیں کرپائیں گے۔ جبکہ اسکے برعکس مسلمان ،اللہ کریم کے تمام انبیاء کرام علیہ سلام کی دل وجان سے عزت و تکریم اور احترام کرتے ہیں بلکہ مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان لائے۔اسرائیلی نمائندہ کے دوسرے پوائنٹ کہ ریاست پاکستان جنس کے حوالہ سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کرے خصوصا ہم جنس پرستوں کے لئے پاکستانی قوانین میں نرمی لائے۔ اپنے آپکو اللہ کریم کی چہیتی اُمت کہلوانے والے یہودی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جنس پرستی نہ صرف دین اسلام میں ممنوع ہے بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں اس فعل بد کی مذمت کی گئی ہے۔ اور قرآن مجید میں قوم لوط کے واقعات کو بہت ہی زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔اسرائیلی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کیسےہم جنس پرستی کی اجازت دے سکتی ہے۔اب آتے ہیں اسرائیل کی طرف سے تیسرے پوائنٹ یعنی پاکستان میں پُرامن مظاہرین کی گرفتاری وغیرہ ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل جیسی ریاست جو اپنے آپکو دنیا کی مہذب یافتہ ریاستوں میں گردانتی ہے ؛ یہ لوگ اپنے خلاف مظلوم فلسطینیوں کی جانب سے پُرامن احتجاج پر نہ صرف عورتوں کو گرفتار کرلیتے ہیں بلکہ کم سن بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے اور حد تو یہ ہے کہ گرفتار افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرا دیتے ہیں۔ اس نقطہ پر بہت ہی احسن انداز سے پاکستانی دفتر خارجہ نے اسرائیلیوں کو منہ توڑجواب دیا کہ پاکستان اسرائیل کے بیان کو پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے ملک اسرائیل کی نصیحت کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے اسرائیل پاکستان کو انسانی حقوق پر نصیحت نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں اور تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسرائیل کی پاکستان کے ریاستی معاملات میں کھلی مداخلت پر بھرپور مذمت کی جارہی ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین پر اسرائیل نوازاور یہودی لابی و ایجنٹ کی طعنہ زنی بھی کی جارہی ہے۔ خصوصی طور پر حکومتی ترجمان و وزراء نے اپنی تنقید کے نشتر پی ٹی آئی لیڈرشپ کی جانب چلانا شروع کردیئے ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بین الاقوامی فورم پر پوری دنیا کے سامنے یہ بیانات یہودی لابی نے کس کے کہنے پر کس کے لئے دیئے ہیں؟ اور وہ کون ہے جو پاکستان کے خلاف دیگر ممالک اور بین الاقوامی فارمز پہ لابنگ کر رہا ہے؟ پاکستان کے خلاف اس وقت عالمی طاقتیں جمع ہو رہی ہیں، اب بھی وقت ہے ایک قوم بن کر ان طاقتوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا۔حکومتی ترجمانوں کے سرکاری و سیاسی بیانات اپنی جگہ پر لیکن یہ حیران کن امر ہے کہ ابھی تک تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسرائیل کے بیانات کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی جانب سےتادم تحریر کسی قسم کا کوئی ردعمل منظر عام پر نہیں آیا۔ سیاستدان گرفتار ہوتے رہتے ہیں، قید بھی کاٹتے ہیں اور رہا بھی ہوتے رہتے ہیں۔لیکن پی ٹی آئی لیڈران و کارکنان کی گرفتاری اور خصوصا عمران خان کی گرفتاری کیوں اتنا حساس مسئلہ بن گیا ہے کہ اسرائیل بھی پریشان ہے اور کھل کر بول پڑا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کرنے والے اسرائیل کو پاکستان پر بات کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ انتہائی اہم بات اس وقت اسرائیل اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے متعلق ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید احمد مرحومین کے بیانات اک مرتبہ پھر سوشل میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو اسرائیلی کھلی مداخلت کی پرزور مذمت کرنی چاہئے ، جس سے نہ صرف پی ٹی آئی بحیثیت قومی سیاسی جماعت کی قدر میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ حکومتی ترجمانوں اور وزراء کی جانب سے اسرائیل اور پی ٹی آئی کے مبینہ تعلقات کے تاثر کی نفی بھی ہوگی۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 164174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.