مثبت زاویہ نظر یا سوچ سے جہاں بہت سے مسائل کا حل نکل آتا ہے ،وہیں اگر اس غور وفکر کے طریقہ کار کو "منفی" کا روگ لگ جائے تو بنی بات بھی بگڑ جاتی ہے اور رشتے کا بندھن خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہمارے سماج میں اکثریت ایسے ہی افراد کی ہے ،خواہ وہ طبقہ تعلیم یافتہ کیوں نہ کہلاتا ہو، شعوری طور پر نہ سہی ، لیکن اس کےلاشعور میں یہ وبا موجودہے،جس کا ادراک، اس کی ذات مسائل سے دوچار ہونے اوراحساس دلائے جانے پر ہی کر پاتی ہے کہ " یہ ندامت منفی نقطہ نگاہ کے سبب اٹھانی پڑی"۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ منفی سوچ ہی منفی رویے کو جنم دیتا ہے، اور یہی انسانی سماج میں بگڑتے تعلقات ،الجھتے رشتے اور دم توڑتے ناطے کی بنیاد ہے، جس نے انسانی حقوق ومعاملات ، معاشرت اور اس کی تہذیب وثقافت کو بے دردی سے روند ڈالا ہے۔ اس ضمن میں روز مرہ کے مشاہدات سے ماخوذ دو چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں،جو اس وضاحت کے لیے کافی ہوں گی کہ انسان کے کردار میں" نقطہ نگاہ" کو کون سا مقام حاصل ہے: مثال: لڑکپن کے ایام میں ٹرین کی سواری کے دوران روشن دان سے باہر جھانکتے ہوئے بارہا آپ یہ دیکھ کر چلا اٹھے ہوں گے کہ یہ درخت ،پیر پودے اور ندی نالے کتنی تیزی سے بھاگے جارہے ہیں۔ یہ آپ کا وہ شعور تھا جسے ناپختہ کہیں یا اسے کسی اور لفظ سے تعبیر دے دیں۔تاہم اب کا شعور یہ کہے گا کہ نہیں ،حقیقت اس کے برعکس ہے کہ انسانی زندگیاں،کھیت کھلیان ،ندی نالے ،دیگر جملہ مشاہدات تو ساکت ہوتے ہیں، البتہ وہ بھاگتے مناظر آگے کی سمت دوڑنے والی رفتار کا نتیجہ ہواکرتے ہیں ۔ مثال: چھوٹی عمر کے بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے پوشاک کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ " فلاں کا کپڑا چھوٹا ہوگیا"حالاں کہ کپڑے چھوٹے نہیں ہوتے بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ طول وعرض میں پھیلتے جسم پر یہ پوشاک فٹ نہیں آتا۔ اوپر کی دونوں مثالیں ناپختہ شعور والوں کے لیے دی جاسکتی ہیں،جس کا نتیجہ حقیقت کے برعکس ہی آتا ہے۔ ان مثالوں سے ایک اہم بات یہ بھی سمجھ میں آئی کہ ناپختہ شعور والوں کا طرز فکر پختہ کاروں کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر جداگانہ ہوتا ہے۔ ان مثالوں میں سوچنے کا انداز گرچہ عکسی ہے، تاہم منفی رویے سے یکسر خالی بھی ہے برعکس اہل شعور کے، ان کا زاویہ نگاہ ہی مثبت یا منفی رویے کوجنم دیتا ہے۔ ذیل کی مثال اس مضمون سےجڑے کردار کے لیے آئینہ ہے۔ " مکمل دیوار کی سفیدی پر روشنائی کی ایک بوند" دوہرے قومے میں قید یہ مبہم سا جملہ انسانی سماج سے جڑا ہوا ایسا کردار ہے، جس کی حقیقت بڑی تلخ ہے اور جس نے بہت سے لبا س وپوشاک والے شرفا کو منٹوں میں ننگ وعار کی مثال بنادی۔ عام سماجی نقطہ نگاہ کے مطابق ہوتا ہے یوں ہےکہ اچھے کردار کو اچھا اور برے کو برا مانا جاتاہے۔یہ ایک عا م اور سادہ سا اصول ہے اچھے اور برے کردار کو پرکھنے کا۔تاہم برے کردار سے اگر اچھائی کی روشنی ملتی ہے تو اسے اس شخص کے حق میں نیک فال تصور کیا جاتا ہے ،اس کے برعکس اگر اچھے کردار سے غلطی کا صدور ہوتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی نہیں کہ اس شخص کے حق میں بہت بڑ ا عیب شمار کیا جاتا ہے،بلکہ اس غلطی کی پاداش میں اس کی جملہ اچھائیاں اور اچھے کردار یک لخت انسانی ذہن کے پردے سے غائب ہو جاتے ہیں،اور اب وہاں جو کچھ بھی موجود ہوتا ہے وہ اس کا ایک معمولی گناہ، جسے ذہن کی خورد بین بہت بڑا کر کے دیکھتی ہے،اور صاحب کردار کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ مذکورہ مثال سماج کے ایسے ہی افراد سے تعلق رکھتی ہے ،چناں چہ اس فلسفے کے مطابق طول وعرض میں ایک بڑی سی سفید اور کسی بھی قسم کےداغ دھبے سے پاک دیوار پر روشنائی یا رنگ کا ٹیکہ برابر بھی داغ آجائےتو راہ گیروں کی نگاہ طول وعرض میں پھیلی اس کی سفیدی پر نہیں جاتی ،البتہ روشنائی کا وہ مٹرکے دانے برابر دھبہ دور سے بھی نظر میں آجاتا ہے۔بعینہ یہی فلسفہ انسانی کردار کو پرکھنے میں اپنایا جاتا ہے کہ ایک شخص کی معمولی غلطی اس کی تمام خوبیوں پر پردہ ڈال دیتی ہےاور وہ پورے سماج میں مطعون اور مشق ستم بن جاتا ہے۔حالاں کہ اس کے اندر موجود ڈھیر ساری اچھائیاں بھی نگاہ میں آسکتی تھیں،جن سے فیصلہ لینے اور درست رائے قائم کرنے میں آسانی ہوتی کہ آیا اسے بدکردار اور بے وقار کہا جائے یا اس کی غلطی جو کہ لائق مذمت تو ہے البتہ اس بنیاد پر اس کی بہت سی خوبیوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا،اس کے چند فوائد ہیں: • امن وآشتی اور اخوت وبھائی چارہ کو پروان چڑھانے اور انسانی رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنےمیں یہ بہت ہی مفید اور معاون ہے۔ایسانہ کرنے سے سماج تین دھروں میں تقسیم ہوجاتا ہے، کچھ اچھوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ بروں کا ساتھ دیتے ہیں، اور ایک طبقہ ہمیشہ سے سماج میں موجود رہا ہے جسے تماش بیں کہہ سکتے ہیں اور وہ اسے سامان تفریح سمجھتے ہیں۔والعیاذ باللہ ! • اس سے انسان کی وہ عزت اور تکریم جو اللہ رب العزت نے عطا کی ہے بحال رہتی ہے،اور اسلام میں کردار کشی کی اجازت بھی نہیں ہے ،بلکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اگر آپ کسی کے عیب پردہ پوشی کرتے ہیں تو اللہ تعالی بروز قیامت آپ کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔"من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ" جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا تو اللہ تعالی بروز قیامت اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔ • سماج کا یہ مثبت رویہ صاحب کردار کے اندر احساس ندامت پیدا کرتا ہےاور اسے راہ راست پر لانے معاون ثابت ہوتا ہے۔ • ایسا کرکے سماج جہاں ایک طرف اس غلط کار کامحسن بن جاتا ہے، وہیں اسے برباد ہونے سے بھی بچا لیتا ہے، اس لیے کہ" فعل کا رد فعل " یہ قانون فطرت ہے ، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔اب اگر سماج کسی کو اس کی غلطی کی بنیاد پر مطعون ٹھہراتا ہے اور اسے اپنی غلطی پر نظر ثانی کا موقع نہیں دیتا تو ایسے فرد کے مزید بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،اور ایسا "فعل کا رد فعل" کے فطری قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ گفتگو از راہ اصلاح سماج کے ان منفی افکار اور منفی نقطہ نگاہ پر ہے، جس نتیجے میں اس قسم کے غلط رویے جنم لیتے ہیں اور پنپتے ہیں ،پھر رفتہ رفتہ پورا سماج کردار کشی کے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جس کا خسارہ دنیوی اور اخروی طور پر جہاں اہل سماج اٹھاتے ہیں کہ وہ سماج کے اندر غنڈوں اور بدمعاش کے کردار کو جنم دینے کے کسی نہ کسی طور پر ملزم بن جاتے ہیں، وہیں سماج کا ایک طبقہ شرفاء اور عزت دار کے دائرے سے نکل کر چور اور لٹیروں کی بری مثال بن جاتا ہے۔
|