میں تعلیم کی بد حالی اور موجودہ جدید استاد کے رویے کے
بارے سوچ رہا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں جب طالب علم
تھا تو انگلش میڈیم سکول بہت کم تھے ، نہ ہونے کے برابر اور کچھ لوگوں کا
رحجان بھی ان کی طرف کم تھا۔ تمام اچھے طالب علم بھی ان سکولوں میں ۔جنہیں
ہم آج ٹاٹ سکول کہتے ہیں، میں داخلے کے متمنی ہوتے تھے۔اچھے ٹاٹ سکولوں کا
میرٹ اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ آسانی سے داخلہ ملنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔سنٹرل
ماڈل سکول جس کی شکل حکمرانوں نے پچھلی دو تین دہائیوں میں بگاڑ دی ہے کبھی
لاہور کا بہترین سکول ہوتا تھا۔بہترین طالب علم وہاں داخلے کو ایک بڑی
کامیابی جانتے تھے۔ باقی ٹاٹ سکول بھی پڑھائی میں بہت اچھے تھے۔ مگر اب وہی
ٹاٹ یا سرکاری سکول صرف غریبوں کے بچوں کے لئے ہی مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں
ان سکولوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ کسی ایلیٹ کا بچہ وہاں نہیں پڑھتا۔
پڑھانے والے بھی گریڈوں اور ترقیوں کی دوڑ میں شامل ہو کر اپنی اصلی ذمہ
داری کو بھول چکے ہیں۔ وہ انتظامی عہدے حاصل کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔اب
ہر وہ شخص جس کے پاس کچھ سرمایہ ہے ،جو پرائیویٹ سکول کی فیس دے سکتا ہے وہ
اپنے بچے کو سرکاری سکول میں داخل کروانا اپنی بے عزتی اور ہتک خیال کرتا
ہے۔
میں بھی ایک ٹاٹ سکول کا پڑھا ہوا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم طالب علم تھے
تو ہمارے استاد بہت شفیق، خلیق، نفیس اور انتہائی برد بار ہوتے تھے۔پہلے دن
کلاس میں آتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ سب سے پہلے ہر طالب علم کے بارے جان
لیں کہ وہ پڑھائی میں کیسا ہے، اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے۔ اس میں اور اس
کے ماحول میں کیا کمی ہے اور اسے بہتر کرنے میں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ وہ ہر
طالب علم پر ذاتی توجہ دیتے ، ہر مشکل میں اس کے مدد گار ہوتے اور طالب علم
یوں محسوس کرتا کہ گویا کوئی اس کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھا رہا ہے۔ وہ
حسب ضرورت نوٹس دیتے، فقروں کی نوک پلک درست کرتے ۔نئی چیزوں اور ان کی
افادیت سے آگاہ کرتے۔ انگریزی اور اردو کے استاد ہمیں صحیح لکھنا سکھاتے
اور ہماری گرائمر کی غلطیاں ٹھیک کرتے ۔ اب تو ماشا اﷲسلیبس سے گرائمر ہی
غائب ہو چکی ۔ اب تمام زبانیں جو ہم بولتے اور لکھتے ہیں مادر پدر آزاد
ہیں۔امتحان میں ٹوٹے پھوٹے فقرے بھی پورے نمبر دے دیتے ہیں۔ کبھی ہمارے
صحیح فقرے بھی پورے نمبر حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
سوال جواب کابچے کی ذہنی نشو و نما میں ایک خاص کردار ہے۔ہمارے استاد سبق
کے بارے ہم سے بھر پور سوال جواب کرتے ، بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے کہ وہ
سوال کریں۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو بچہ سوال کرنا نہیں جانتا ، وہ ہمیشہ
شرم اور جھجھک کا شکار رہتا ہے۔ وہ بچہ نہ تو اچھا طالب علم ہوتا ہے اور نہ
آئندہ زندگی بہتر گزارنے کے قابل ہوسکتا ہے۔اسے اچھی زندگی گزارنی محال
ہوتی ہے۔میں اپنی کلاس میں اپنے سٹوڈنٹس کو ہمیشہ سوال جواب کا کہتا ، ان
کی ھوصلہ افزائی کرتا اور سوال جواب کے لئے کلاس میں وقت بھی دیتا ہوں۔ میں
انہیں ایک واقعہ بھی سناتا ہوں کہ حضرت رابعہ بصری چودہ سال کی عمر میں
حضرت حسن بصری کی کلاس میں ان سے پڑھنے جاتی تھیں۔حسن بصری کی عمر اس وقت
اسی سال تھی۔ وہ کچھ دیر پڑھاتے اور پھر اس موضوع پر سوال جواب اور زبردست
بحث ہوتی۔رابعہ بصری سوال جواب میں بڑھ کر حصہ لیتیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا
کہ رابعہ درس سننے نہیں آتیں، اس دن حضرت حسن بصری درس نہیں دیتے تھے کہ
دوسرے طلبا سوال جواب سے نا آشنا تھے اور چپ بیٹھے رہتے تھے۔ کسی نے حضرت
حسن بصری سے پوچھا کہ رابعہ نہیں آتی تو آپ لیکچر کیوں نہیں دیتے۔ ہنس کر
کہا کہ وہ خوراک جو میں نے ہاتھیوں کے لئے تیار کی ہے اسے چیونٹیوں میں
کیوں بانٹوں۔تو میرے خیال میں سوال جواب کرنے والا طالب علم ایک سوچ رکھتا
ہے، بہتر سیکھتا ہے بلکہ استاد کو بھی بہت کچھ سکھاتا ہے اور اپنے استاد کا
ایک بہترین اثاثہ ہوتا ہے۔ان دنوں استاد جتنا بھی شاگردوں سے کھل کر بات
چیت کرے وہ اپنے عہدے کا بھرم رکھتا تھا۔ نہ استاد ایسی بات کرتا کہ طلبا
کی نظروں میں اس کی توقیر کم ہو نہ بچوں کو ایسی بات کرنے دیتا کہ وہ استاد
کو استاد سے مقام سے گرا دیں۔
آج کا جدید استادان خطوط پر سوچتا ہی نہیں۔نہ وہ پڑھاتا جذبے کے سات ہے اور
نہ ہی اپنے رویے کے بارے محتاط۔ ان میں استاد جیسی برد باری، وقار اور تحمل
مفقود ہے ۔ان کا پڑھنا اور پڑھانا بھی جدید ہے ۔وہ پہلے دن کلاس میں آتا ہے
تو سمجھتا ہے کہ وہ افلاطون ہے اوراس کے سارے شاگرد ارسطو۔پڑھانے کے لئے بس
چند اشارے ہی کافی ہیں۔انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ استاد طلبا کے لئے رول
ماڈل ہوتا ہے اور طالب علم اس کے رویے کو تاحیات محسوس کرتے ہیں۔ استاد کے
لئے ان کا زندگی بھر کا احترام اسی رویے سے منسلک ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کی آمد
کے بعد اب استاد بہت سہل پسند ہے اور وہ مثبت رویہ جو استاد کا خاصہ ہونا
چاہیے اب مفقود ہے۔ آج کا استادبچوں کو سرسری گائیڈ کرنے کے بعد کمپیوٹر کے
حوالے کر دیتا ہے کہ کسی سرچ انجن پر باقی تلاش کرو اور پھر کٹ اینڈ پیسٹ
زندہ باد۔یہ وہ مرحلہ ہوتا جو بہت بعد میں آتا ہے مگر جدید استاد اپنی جان
چھڑانے اور محنت سے بچنے کے لئے یہی بہتر جانتے ہیں۔بچوں کو اطمینان سے
پڑھانے کی بجائے چھلانگیں لگاتے ہوئے بس وقت گزاری کرتے ہیں۔ویسے بھی وہ
سلیبس کی پرواہ نہیں کرتے ۔جو جی میں آتا ہے پڑھاتے ہیں، باقی مقدر کی بات
ہے کہ کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے۔پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی بات کیا کی جائے
۔ حکومت نے حال ہی میں بہت سوں کی ڈگری کو جعلی قرار دیا ہے مگر جو لوگ
کاروبار کرتے ہیں انہیں اپنے کاروبار سے زیادہ کچھ عزیز نہیں ہوتا۔ وہ کٹ
پیسٹ کراتے ہیں ، کہ یہ فن سیکھو اور ڈگری لو۔انہیں فقط اپنے پیسوں سے غرض
ہوتی ہے۔تعلیم کو کاروباری طبقے کے حوالے کرنا بھی تعلیم ہی نہیں اس ملک کے
بچوں اور اس ملک کے مستقبل کے ساتھ ایک بڑا ظلم ہے۔عملاً ہماری درسگاہوں
میں حقیقی استاد ختم ہو چکے ہیں۔ پالیسی سازوں کو تعلیم کی اس زبوں حالی
اور استادوں کے معاملے میں درسگاہوں کے بانجھ پن کے بارے سوچنا ہو گا۔ |