کسی ملک و قوم کی ترقی اور مستقبل کا دارومدار ،اس کے نظامِ تعلیم
پر ہوتا ہے۔عالمی رہنما نیلسن منڈیلا کے مطابق:
"تعلیم ایک ایسا طاقت ور ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے آپ دنیا بدل سکتے ہیں "-
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن_عزیز پاکستان کا نظام تعلیم زبوں حالی کی طرف گامزن
ہے۔ سب والدین اپنے بچوں ،بیٹییوں کو پڑھا لکھا کے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا خواب
دیکھتے ہیں۔ اس قدر مہنگائی کے دور میں جب تعلیمی اداروں میں داخلہ اور باقاعدہ فیس
آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، حقیقت میں والدین یا سرپرست اپنی ذات کی قربانی دے کر
خون پسینہ ایک کرکے ان تعلیمی اداروں کا خرچ برداشت کر رہے ہیں۔پاکستان کی ستر فیصد
آبادی دیہات میں رہتی ہے ،اسی لئے عالمی اداروں کی رینکنگ کے مطابق یہاں شرح
خواندگی بہت کم ہے ۔ہمارے نظام تعلیم کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کا تعلق جاب سے
جوڑ دیا گیا ہے۔ لوگ علم و ہنر سیکھنے کے لئے ایڈمیشن نہیں لیتے بلکہ پیسہ کمانے کا
مقصد پیش_نظر ہوتا ہے ۔بقول علامہ اقبال:
عصرِ حاضر ،ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری ،دے کے تجھے فکر_معاش
نظام تعلیم میں فکری تنزل اور اخلاقی کرپشن کے سبب ،اساتذہ کی تقرریاں میرٹ پر نہیں
کی جاتیں بلکہ ان کا تقرر زیادہ تر سفارش ،اقربا پروری اور رشوت کی بنیاد پر ہورہا
ہے۔جس استاد کی تعیناتی ہی جھوٹ فریب اور دھوکے کی بنیاد پر ہوئی ہو ،وہ طالب علموں
کی کیا تربیت کرے گا ؟ اساتذہ کا تقرر نہ صرف میرٹ پر ہونا چاہئیے بلکہ ڈگریوں کے
ساتھ ان کا رویہ ،انداز_گفتگو ،لباس،طرز_زندگی اور ان کے سابقہ ریکارڈ کو بھی
دیکھنا چاہئیے۔ایسے اساتذہ سے طلبہ و طالبات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہے جو
اخلاق اور کردار کے لحاظ سے کرپٹ ہوں۔ حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا جو
معاملہ سامنے آیا ہے ،اس کے صدمے سے ہر ذی شعور سکتے کی حالت میں ہے۔ یونیورسٹی کے
چیف سیکیورٹی آفیسر اور وائس چانسلر کی ، سینکڑوں طالبات کے ساتھ نازیبا ویڈیوز کا
ملنا کسی بہت بڑے بحران کی علامت ہے۔ سیکیورٹی آفیسر سے منشیات برآمد ہونا
،یونیورسٹی کی انتظامیہ پر سوالیہ نشان ہے ۔کیا اب والدین اپنی بیٹیوں کو
یونیورسٹیوں میں بھیجیں یا نہیں ،ہر گھر میں یہ سوچا جارہا ہے ۔اس سے قبل لاہور کے
ایک اسکول میں بھی منشیات کی خریدوفروخت کا انکشاف ہوا تھا ،جب ایک بچی کو اس سے
سینئیر طالبات نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا،صرف اس لئے کہ وہ منشیات کے استعمال سے
انکاری تھی ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی کے پیچھے کون
سی مافیاز ہیں جو یہ زہر نوجوانوں کی رگوں میں انڈیل رہی ہیں اور قوم کے مستقبل کو
خطرے سے دوچار کر رہی ہیں ؟اس آگ کے ماخذ کا پتہ نہ لگایا گیا تو یہ خدانخواستہ ہر
گھر تک پہنچ جاۓ گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں کا نظام درست کرنے کے
لئے قوم کا ہر فرد اپنی زمہ داری محسوس کرے اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے
سانحہ کے کرتا دھرتاؤں کو سخت سزا دی جائے تاکہ اس طرح دوسرے مجرم بھی ڈر کے ان
جرائم سے باز رہیں۔
آخری بات ،والدین سے گذارش ہے کہ خدارا ڈگری کو بت بنا کے اس کی پرستش نہ کریں۔یہ
محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ اگر آپ تعلیمی اداروں سے مطمئن نہیں تو اپنے بچوں کو آن لائن
تعلیم دلوائیں یا ہوم ٹیوشن کا بندوبست کرلیں یا پھر انھیں کوئ ہنر سکھا دیں جس سے
وہ روزگار حاصل کرسکیں ۔آج کل ڈیجیٹل اسکلز کا سکوپ ،ڈگری سے زیادہ ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا ،اہل_ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آۓ صدا ،لا الہ الااللہ !
|