میلہ و خانقائی خرافات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کیا علماء پیرو مشائخ کے بغیر سب کچھ مکمل ہو جاتا ہے؟ کیا اگر علماء و پیر حضرات روکنا چاہیں تو نہیں روک سکتے؟کوئی شادی بیاہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نکاح پر ان علماء ، مولویوں اور پیروں کے دستخط اور مہر نہ لگے، گویا کہ جوشروع سے غلط رسومات ہو کے آ رہی ہوں اس کی تکمیل پر مہر تمہاری لگ رہی ہے ۔ تمہیں نکاح و دیگر تقریبات سے آنے والا پیسہ نظر آتا ہے ، غلط روایات اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت نہیں ۔ غرض نے تمہیں آلود کر دیا ہے ۔ تمہیں رسول اللہ ﷺ کی ایک سنت نظر آتی ہے نکاح پڑھانے کی اور دوسری نہیں ۔ تم نے قرآن سے سبق نہیں سیکھا، تم نے قرآن سے راہنمائی نہیں لی ۔ قرآن میں تو اللہ کریم نے آپ ﷺ کو خلاف دین باتوں والی مسجد میں جانے سے روک دیا کہ تم نہ وہاں جا کے کھڑے ہونا، نہ نماز پڑھنا ۔ اور اس جگہ جانے کا حکم دیا جس کی بنیاد شروع سے تقویٰ پر ہے ۔
یہ بھی تو اللہ کا حکم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ دین کے خلاف باتوں والی محفل میں نہیں جانا ۔ تمہیں صرف نکاح پڑھانے والی سنت ہی نظر آتی ہے کہ اس سے تمہیں کچھ حاصل ہو گا اور دوسری بائیکاٹ کی سنت سے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا ۔ تم خلاف دین رسوم و روایات والی محافل میں جا کر بڑے ٹھاٹھ سے بیٹھتے ہو ۔ اللہ کریم تو ایسی محافل، ایسی جگہوں پر جا کر فرض نماز تک ادا کرنے سے منع فرما رہے ہیں اور تم کہتے ہو ہم تو سنت پوری کرنے جاتے ہیں ۔ قرآن تو حکم دے رہا ہے کہ ایسی محافل میں جاؤ جس کی بنیاد شروع سے تقویٰ پر ہو اور تم ایسی تقریبات اور محافل میں جاتے ہو اور گواہ بنتے ہو جس کی بنیاد شروع سے شیطانیت پر ہے اور خلاف دین روایات سے ہے ۔ تم لوگ غرض آلود ہو چکے ہو، تم نے مصلحت کر لی ہوئی کہ چلو کوئی بات نہیں اللہ معاف کرنے والا ہے ۔
تیری گر مسجد ضرار ہے ملاں تو تُو خاک ہے مسلم گرا دو مسجد ملاں سمجھ اسلام جاؤ گے یہ تعصب سے بھرے مذہبی تیرے دشمن ہیں سمجھ مسلم بھاگا دو کالی بھیڑوں کو امن دنیا میں پاؤ گے مسجدیں بنی ہیں نفرت کے گہوارے سنو مسلم ہٹا دو ان سے ملعون کرداروں کو خلوص دنیا میں پاؤ گے اٹھو مسلم! اٹھو مسلم! گھر لگی اس آگ کو روکو بدل دو دوغلے کردار سربلندی دنیا میں پاؤ گے
جب ان سے پوچھا جائے کہ تم غلط رسومات والی تقریب کی تکمیل کرنے کیوں جاتے ہو تو بڑے بھولے منہ سے جواب آتا ہے کہ وہ لوگوں کا اپنا فعل ہے ہم تو نہیں کہتے کرو، ہم تو ملوث نہیں ہیں ۔ تم ملوث ہو رہے ہو اس کی تکمیل پر دستخط کر کے ۔ اگر تم نہیں کہتے تو انہیں روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر تم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو مجرم تم ہو معاشرہ نہیں ۔ جس طرح گورنمنٹ کوئی پروجیکٹ یا کوئی شخص کوئی کام کسی ٹھیکیدار کو ٹھیکہ پر دیتا ہے ۔ اب اگر اس ٹھیکہ اور کام کی تکمیل میں ناقص میڑیل استعمال ہوا ہو اور اس کی تکمیل بھی غلط طریقوں سے کی گئی ہو تو مجرم مزدور نہیں ہوں گے بلکہ ٹھیکیدار ہو گا ۔ ساری گرفت ٹھیکیدار پر ہوگی ۔ تم دین کے ٹھیکیدار تو بنتے ہو مگر ذمہ داری سے بھاگتے ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں دین کا وارث بنایاہے اور ذمہ داری سونپی ہے اور تم کہتے ہو لوگوں کا ذاتی فعل ہے جو مرضی کریں ۔ یاد رکھو! لوگوں کے ذاتی فعل کے سبب اگر رب کا قہر و غضب برسا تو وہ چھوڑے گا تمہیں بھی نہیں ۔
والذی نفسی بےدہ لتامرون بالمعروف و لتنھون عن المنکر و لتاخذن علی ید المسی ولتاطرنہ علی الحق اطرا او لیضربن اللہ قلوب بعضکم علیٰ بعض اولیلعنکم کما لعنھم
’’اس خدا کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ تمہارےلیے لازم ہے کہ معروف ( نیکی ، بھلائی ، اچھائی) کا حکم دو اور برائی سے لوگوں کو منع کرو، بدکار کا ہاتھ پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑ دو ، ورنہ اللہ تعالیٰ بدکاروں کے دلوں کا زنگ معصیت و حق پرستی کے دعویداروں کے دلوں پر چڑھا دے گا یا تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح یہود پر کی ۔ ‘‘ (ابن کثیر)
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے اول تو انہیں منع کیا لیکن جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ بھی ان میں غل مل گئے اور کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے ان کے اس عصیان و تعدی کے سبب اللہ تعالیٰ نے حضرت داءود اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ان پر لعنت اتاری ۔
ایک اور مشہور حدیث، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو الٹا دو ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی ۔ مالک! اس بستی میں تیرا ایک بہت نیک اور شکر گذار بندہ رہتا ہے اور اس کی زبان ہر لمحہ تیرے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور تیرا ضابطہ ہے کہ جہاں ایک ذاکر و عبادت گذار بندہ ہو اس بستی کو برباد نہیں کیا جاتا تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ۔
اقلبہا علیہ و علیہم فان وجہہ لم یتمعاہ فیہا ساحۃ قدۃ
جاؤ! اور اس سمیت بستی کو الٹا کے رکھ دواسلئے کہ یہ اللہ اللہ کرنے والا ایسا شخص ہے کہ یہ جو حالات بنے ہیں کبھی اس کے چہرہ پر ذرا تغیر بھی پیدا نہیں ہوا ، اس کے چہرہ پر کبھی ان حالات سے بیزاری کا اظہار بھی نہیں آیا، مجھے اس کے سجدوں کی ضرورت نہیں تم اس سمیت ہی بستی کو غرق کر دو ۔
اس وقت جو ہمارے معاشرہ میں حالات بنے ہیں تم ان سے اپنی جان بچا کے بھاگ نہیں سکتے ۔ تم ان سے باہمی حکمت عملی سے کیوں نہیں لڑتے؟تم ان غلط رسومات کے خلاف رخ متعین کرنے سر جوڑ کر کیوں نہیں بیٹھتے؟ تم معاشرتی خرافات کے آگے جمنے کو تیار نہیں ۔ شادی بیاہ، عرس و میلہ کونسی ایسی معاشرتی تقریب ہے جو تم علماء، پیرو مشائخ کے بغیر مکمل ہوتی ہے ۔ تم بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے جو خلاف شرح ہو؟ اگر تم سب ، تمام مکاتب فکر کے علماء و پیرو مشائخ ایک مرکز پر متحد ہو کر ایک متفقہ حکمت عملی اپنائیں تو ان غلط خرافات و روایات کے آگے بند باندھنا صرف ایک دن کا کام ہے صرف ایک دن کا ۔
اگر ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے علماء پیرو مشائخ یکجا ہو کر متفقہ طور پر یہ اعلان کریں کہ جس شادی بیاہ کی تقریب میں شرعی اصولوں کو چھوڑ کر غلط رسومات اپنائی گئیں ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے ، نہ ہم اس کا نکاح پڑھائیں گے،نہ پڑھانے دیں گے، نہ نکاح رجسٹرڈ کریں گے ، نہ ہونے دیں گے ۔ اور جوکرایہ کا مولوی میر صادق میر جعفربن کر علماء کے اس متفقہ فیصلے کو بالائے طاق لاتے ہوئے غلط رسومات کی شادی کا نکاح پڑھائے گا اسے اس کی سزا بھگتنا ہو گی ۔ اسی طرح میلہ و خانقائی خرافات کو روکنے کیلئے بھی ایسی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے ۔
اگر باہم متفق ہو کر یہ اعلان کر دیا جائے تو میں دیکھتا ہوں اگلے دن کونسی شادی ہوتی ہے، کون سے گٹار بجتے ہیں ، کونسا میلہ سجتا ہے غلط رسومات اپنا کر،اور شرعی اصولوں کے خلاف چل کے؟ عوام تو عمل کرنے کو تیار ہے اگر کوئی حکمت عملی سے کروانے والا ہو تو ۔ بد قسمتی سے ہمارے علماء اور بڑے کارپرداز سر جوڑ کربیٹھنے، سوچنے اور کوئی حکمت عملی اپنانے کو تیار نہیں ہو رہے ۔
ایصال ثواب کے مجمعوں میں موقع ہوتا ہے کہ لوگوں کواحسا س ِفکر دیں اور قبر یاد دلا کر میدان عمل میں اتاریں ، یہ وہاں بھی رحمت، شفقت، مغفرت، فضل اور شفاعت کی داستانیں سنانے بیٹھ جاتے ہیں ۔ انہوں نے جنت، رحمت ، مغفرت و شفاعت کی لوٹ سیل لگا رکھی ہوئی ہے، جیسے اتنی آسان ہے کہ ہر بدعمل کوبغیر محنت اور عمل کیے مل جائے گی ۔ یہ لوگوں کو ہر بات پر جنت کا لالچ دیتے ہیں ۔ یہ کر لو جنت مل جائے گی، وہ کر لو جنت مل جائے گی ۔ کیا خدا کی عبادت جنت کے لالچ میں کی جاتی ہے یا کرنی چاہیے؟
سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں تیرا مزدور نہیں
عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی مبارک زبان اقدس سے جنت کی بشارت پا کر بھی اس کی آس نہیں رکھی اور اپنے عمل اور محنت پہ زور دیا ۔ امیرالمومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بشارتاً جنتی مگر کبھی عمل سے غفلت نہیں برتی ۔ میرے آقا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر برابر برابر بھی چھوٹ جاؤں رب کی عدالت سے تو اس کا فضل ہو گا ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ درختوں پر چہل رہی ہے ، کبھی کسی شاخ پہ بیٹھتی ہے کبھی کسی پہ ۔ آپ رضی اللہ عنہ دیکھ کر فرمانے لگے ۔ اے چڑیا ! کیا موج لگی ہے تیری، اور تو جنت بھی چلی جائے بغیر حساب کتاب کے، پھنسے تو ہم ہیں جن کا حساب ہونا ہے ۔ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک قبر کے قریب سے گذر ہوا تو آپ دیکھ کر ڈھاہیں مار رونے لگے، اصحاب نے پوچھا! بندہ نواز، اتنا کیوں روتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے سنا ہے کہ آخرت کی پہلے منزل قبر ہے اس لئے مجھے یہاں رونا آ رہاہے ۔ امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ نے کبھی بھی زندگی میں بغیر حساب کتاب جنت جانے کا سوچا تک نہ تھا ۔ اور ہم بد عمل لوگ کہتے ہیں ہم بغیر حساب کتاب جنت میں چلے جائیں گے، شفاعت ہو جائے گی، رب کی رحمت اور فضل ہو جائے گا ۔
رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے قریب رہ بھی پوری زندگی میں صرف ایک حج کیا، اُنہیں امت کے امور سے فراغت نہیں تھی ،اُنہیں امت کے کاموں سے فرصت نہیں تھی، امت کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر کعبے کے طواف کیلئے ان کے پاس وقت نہیں تھا ۔ آپ ﷺ اور آپﷺ کے اصحاب دین کی فروغ و اشاعت اور تنفیذ کے حوالہ سے کبھی گھر چین سے نہیں بیٹھے تھے ۔ آپ ﷺ پر پتھر برسے پھر بھی میدان عمل میں رہے، آپ ﷺ کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے مگر اقامت دین کی جہد ترک نہیں کی ۔ مگر ان پر تو پھول برستے ہیں ، جہاں جائیں پھولوں کی پتیوں کی بارش ہوتی ہے پھر کیوں سرد ہو کر بیٹھے میدان عمل میں کیوں نہیں اتر رہے؟
میدان عمل سُونا اور ویران چھوڑ کر انہیں آئے روز طواف کیلئے کعبے بھاگنے کا شوق ہے، ریاکارکہ لوگ انہیں بڑا عاشق اور الحاج کہیں ۔ یہ حضور ﷺ کی سیرت کا طواف کیوں نہیں کرتے اور لوگوں سے کیوں نہیں کرواتے ۔ ملت کو کیوں آپ ﷺ کی سیرت و کردار کے طواف کا درس نہیں دیتے؟ حضور ﷺ کی ذات کا طواف، حضور ﷺ کی سیرت کا طواف، حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کا طواف، حضور ﷺ کے اوصاف کا طواف، حضور ﷺ کے کردار و اطوار کا طواف کعبے کے کھربوں طوافوں سے افضل ہے ۔
کعبے کی فضیلت و حرمت سے تو ایک مسلمان کی جان، مال، عزت و آبرو کا تحفظ، اس کے وقار، اس کی عزت نفس ، اس کی حرمت و تقدس کا احترام زیادہ فوقیت و عظمت رکھتا ہے ۔ میں حدیث کی کتب کا عالم اور مفتی نہیں ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ ایسی ایک نہیں کئی احادیث ہیں جن میں آپ ﷺ نے ایک مسلمان کی جان ، مال، عزت و آبرو اور اس کے نفس کے تقدس کو کعبہ کی حرمت سے افضل قرار دیا ہے ۔ صحیح بخاری و مسلم شریف کی مشہور متفق علیہ حدیث ہے کہ جناب رسول اکرم ﷺ نے کعبے کو دیکھ کر اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’ کتنا عظیم ہے تو، کتنا بلند ہے تیرا مقام، مگر مجھے اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میں محمد ﷺ کی جان ہے ۔ ایک مسلمان کی جان ، مال، عزت و آبرو، تقدس و حرمت کا احترام تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے ۔ ‘‘
ایک اور روایت میں پڑھا کہ کسی صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اگر ایک طرف خانہ کعبہ گر رہا ہو اور دوسری طرف ایک مسلمان کی جان جانے کا خطرہ ہوتو ہم کس کی مدد کو ڈوریں ، کعبہ کو بچائیں یا ایک مسلمان کی جان کو؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ تم ایک مسلمان کی جان بچانے کیلئے ڈور لگانا، کعبہ تو پھر بھی بن جائے گا پر ایک مسلمان کی گئی جان ،بہا خون واپس نہیں آئے گا ۔ گویا ایک مسلمان کی جان بچانا کعبہ بچانے سے افضل ہے ۔
آج دنیا میں کتنے ایسے کعبے گر رہیں ہیں ؟ ایسے کتنے کعبوں کی بے حرمتی ہورہی؟ ایسے کتنے کعبے مسمار کیے جا رہے؟ کتنوں کی عزت و عصمت سے کھیلا جا رہا، کتنوں کے وقار کو کچلا اور عزت نفس کو مجروع کیا جا رہا ہے، کتنوں کے تقدس اور حقوق کو پامال کیا رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ان کا تقدس، ان کی حرمت کعبے سے افضل نہیں ہے؟ ایسے کعبوں کی حفاظت اور تقدس و حرمت کا درس کیوں نہیں دیا جاتا ملت کو؟
یہ جو رقم آئے روز کعبے کے طواف کیلئے خرچ کرتے ہیں وہ یہاں معاشرہ میں رہ کر لوگوں سے نبی کریم ﷺ کی سیرت کے طواف کروانے پرخرچ کیوں نہیں کرتے؟ دین کی آبیاری پر خرچ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ملت کی بیداری، ملت کی اصلاح، ملت کے ضمیر جھنجھوڑنے والی تقریریں اور تحریریں لکھ کر، اس کے پمفلٹ اور لٹریچر چھپوا کر کیوں نہیں بانٹتے لوگوں میں لنگر کی طرح ۔ اب محفلوں پہ لنگر امت کی ضرورت نہیں ہے، شعور اور بیداری کی تحریک و مہم امت کی ضرورت ہیں ، عمل سے محبت، محنت سے لگن امت کی ضرورت ہے ۔ بیداری امت، اصلاح امت ، رسول اللہ ﷺ کی سیرت و کردار اور دین کی آبیاری پر جاندار مضامین ، ضمیر جھنجھوڑنے والی، جوش و احساس دلانے والی، جذبے جواں کرنے والی تقریریں ، واعظ اور تحریریں وقت کی ضرورت ہیں کہ سوئی قوم جاگے،اپنی کروٹ بدلے اور عمل پر زور دے ۔ مگر شائد انہیں احساس نہیں ہے وقت کی ضرورت کا ۔
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں
آج حضورﷺ کی امت پر فتنہ کی سی کیفیت ہے ، دین کوڑیوں کے عوض بیچا جا رہا ہے،حضور ﷺ کی ناموس پر حملے ہو رہے ہیں ، آپ ﷺ کے منصب رسالت کا تمسخر اڑایا جا رہاہے، آپ ﷺ کی ذات والا صفات کی توہین کی جارہی ہے، آپ ﷺ کی حرمت پر حملے ہو رہے ہیں ، آپ ﷺ کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے، آپ ﷺ کے خاکے تراشے جا رہے ہیں ، آپ ﷺ کے مرتب کردہ قوانین، اصول و ضوابط اور دستور کو بدلا جا رہا ہے ، قرآن مقدس جل رہے ہیں ، قرآن کو لیٹرینوں اور گندی نالیوں میں پھینکا گیا، قرآن مقدس کے اوراق ٹیشو پیپر کی طرح لیٹرینوں میں رکھے گئے ۔ حضور ﷺ کی امت ظلم و جبر کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے اور انہیں کوئی فکر نہیں ، کوئی احساس نہیں ، یہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ۔ یہ امت کو مشکلات سے نکالنے اور ظلم سے نجات دلانے کا نہیں سوچتے ، ان کے پاس وقت ہی نہیں غرض سے نکل کر امت کی فکر کرنے کا ۔ ان کا نظریہ ہے کہ اگر امت دنیا میں مشکلات اور مظالم نہیں سہے گی تو جنت کیسے جائے گی؟ ان کا یہ درس ہے کہ اِصْبِرْ اِصْبِرْ، صبرکرو، ظلم و جبر سہو اور جنت جاؤ ہم تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتے ۔ میدان عمل عشق و جانثاری کے دعوےداروں سے خالی ہے اور سٹیج پر اس کے بلند بانگ دعوے ہیں ۔
حضور ﷺ کی حرمت و تقدس پر حملہ ہو اور کوئی شخص میدان میں نہ نکلے اور سٹیج پر چڑھ کے کوئی جنتے مرضی دعوے کرتا رہے ایسے کھوکھلے دعوے قبول نہیں ہوں گے ۔ ہمارے علماء پیرو مشائخ سمجھتے ہیں کہ کسی توہین و گستاخی پر ایک احتجاجی ریلی نکالی تو ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی ۔ خالی ریلی نکال کر اور پھر چپ سادھے گھر بیٹھ جانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا، کھوکھلے مظاہروں سے کام نہیں بنے گا جس کے پیچھے عمل کا زور نہ ہو ۔ یہاں کچھ عمل دیکھانا پڑے گا ۔ ڈنڈا اٹھا کرسر پر کفن باندھے ہر وقت میدان عمل میں رہنا پڑے گا کہ اب کسی میں دم ہے تو کھولے ہمارے آقا ء کریم ﷺ پر زبان، ہم وہ زبان کاٹ کے رکھ دیں گے ۔ عمل کے بغیر فضل کی آس سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ عمل سے بیزار فضل والے یاد رکھیں یہ جملہ اور حشر تک لکھ کراپنے پاس رکھیں ، پھر دیکھنا حشر میں حشر کیا ہو تا ہے تمہارا ۔
|