اعمال نامہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال کی نگہداشت کے لیے کچھ فرشتے مقرر کیے ہیں
جن کو کراماً کا تیبن کہتے ہیں، وہ بنی آدم کی نیکی اور بدی لکھتے رہتے ہیں
ہر آدمی کے ساتھ دو فرشتے ہیں، ایک دائیں ایک بائیں ۔ نیکیاں داہنی طرف کا
فرشتہ لکھتا ہے اور بدیاں بائیں طرف کا اسی صحیفے یا نوشتے کو اعمال نامہ
کہا جاتا ہے۔ اسے یوں سمجھ لو کہ ہمارے اچھے برے تمام اعمال کے مکمل ریکارڈ
کا نام اعمال نامہ ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص کا نامہ اعمال اسے دیا جائے گا۔
نیکوں کے داہنے ہاتھ میں اور بدوں کے بائیں ہاتھ میں اور کافر کا سینہ توڑ
کر اس کا بایاں ہاتھ اس سے پشت نکال کر پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا کہ خود
پڑھ کر فیصلہ کرلے کہ جو کام عمر بھر میں نے کئے تھے ۔ کوئی رہا تو نہیں یا
زیادہ تو نہیں لکھاگیا۔ ہر آدمی اس وقت یقین کرے گا کہ ذرہ ذرہ بلاِ کم و
کاست اس میں موجود ہے۔ اس میں اپنے گناہوں کی فہرست پڑھ کر مجرم خوف کھائیں
گے کہ دیکھئے آج کیسی سزا ملتی ہے اور کافر کا تو خوف کے مارے برا حال ہوگا۔
پھر میزان پر لوگوں کے نیک و بداعمال تو لے جائیں۔
وزنِ اعمال کے لیے قیامت میں جو میزان نصب کی جائے گی اس کا کچھ اجمالی
مفہوم جو شریعت نے بیان فرمایا ہے یہ ہے کہ وزن ایسی میزان سے کیا جائے گا
جس میں کفتیں(یعنی پلے) اور لسان (یعنی چوٹی) وغیرہ موجود ہیں اور اس کا ہر
پلہ اتنی وسعت رکھے گا جیسی مشرق و مغرب کے درمیان وسعت ہے۔ اس سے زائد
تفصیلات پر مطلع ہونا کہ وہ میزان کس نوعیت کی ہوگی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟ یہ ہماری عقل و ادراک کی رسائک سے باہر ہے اسی لیے
ان کے جاننے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی بلکہ یہ عقیدہ تعلیم فرمایا گیا کہ
میزان حق ہے اور قیامت کے دن سب لوگوں کے اعمال کا وزن دیکھا جائے گا جن کے
اعمال قلبیہ واعمال جو ارح وزنی ہوں گے۔ وہ کامیاب ہیں اور جن کا وزن ہلکا
رہا وہ خسارے میں رہیں گے۔
بعض علماء کرام فرماتے ہیں ہر شخص کے عمل وزن کے موافق لکھے جاتے ہیں ایک
ہی کام ہے اگر اخلاص ومحبت سے اور حکم شرعی کے موافق کیا اور برمحل کیا تو
اس کا وزن بڑھ گیا اور دکھاوے کو یا ریس کو کیا یا موافق حکم اور برمحل نہ
کیا تو وزن گھٹ گیا۔ دیکھنے میں کتنا ہی بڑا عمل ہو مگر اس میں ایمان
واخلاص کی روح نہ ہو وہ اللہ کے یہاں کچھ وزن نہیں رکھتا۔ آخرت میں وہی
صحیفے یا نوشتے تلیں گے جن میں اعمال کا اندراج کیا جاتا ہے اور یہ بھی
ممکن ہے کہ وہاں اعمال حسنہ کسی نورانی شکل و جسم میں تبدیل کر دئیے جائیں
اور اعمال قبیحہ کسی ظلماتی شکل و جسم میں اور پھر ان اجسام کا وزن کیا
جائے گا۔
حساب کتاب
اعمال کے حساب کی نوعیتیںجدا گانہ ہوں گی، کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے
گا کہ خفیتہً اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے یہ کیا اوریہ کیا؟ وہ عرض کرے
گا ہاں اے میرے رب، یہاں تک کہ تمام گناہوں کا اقرار کر لے گا او ر اپنے دل
میں سمجھے گا کہ اب کم بختی آئی مگر وہ کریم فرمائے گا کہ ہم نے دنیا میں
تیرے عیب چھپائے اور اب ہم بخشتے ہیں۔
اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک بات کی باز پرس ہوگی۔ اور ہلاک ہوگا اور
کسی کو نعمتیں یا دولا دلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تیرا خیال تھا کہ ہم سے
ملنا ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ نہیں، فرمائے گا کہ تونے ہمیں یاد نہ کیا ہم بھی
تجھے عذاب میں چھوڑتے ہیں۔ بعض کافر ایسے بھی ہوں گے کہ جب نعمتیں یاد دلا
کر فرمائے گا کہ تو نے کیا کیا ؟ تو وہ ایمان ، نماز، روزہ ، صدقہ وخیرات
اور دوسرے نیک کاموں کا ذکر کر جائے گا، ارشاد ہوگا تو ٹھہر جاء تجھ پر
گواہ پیش کئے جائیں گے پھر اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور اعضاء کو
حکم ہوگا بول چلو، اس وقت اس کی ران اور ہاتھ پاؤں، گوشت پوست ہڈیاں سب
گواہی دیں گی کہ یہ تو ایسا تھا، ایسا تھا ، وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
کسی مسلمان پر اس کے اعمال پیش کئے جائیں گے کہ وہ اپنی طاعت و معصیت کو
پہچانے ، پھر طاعت پر ثواب دیا جائے گا اور معصیت سے تجاوز فرمایا جائے گا
یعنی نہ بات بات پر گرفت ہوگی نہ یہ کہا جائے گا کہ ایسا کیوں کیا؟ نہ عذر
کی طلب ہوگی اور نہ اس پر حجت قائم کی جائے گی۔
اس امت میں وہ شخص بھی ہوگا جس کے ننانوے دفتر گناہوں کے ہوں گے اور اس سے
پوچھا جائے گا کہ تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ وہ عرض کرے گا نہیں، پھر ایک پرچہ
جس میں کلمہ شہادت لکھا ہوگا نکالا جائے گا اور حکم ہوگا جاتلوا، پھر ایک
پلہ پر یہ سب دفتر رکھے جائیں گے اور ایک میںوہ، وہ پرچہ ان دفتروں سے
بھاری ہو جائے گا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہتوں کو بلاِ حساب جنت میں داخل فرمائیں گے،
تہجد گزار بھی بلاِ حساب جنت میں جائیں گے۔ با جٰملہ اس کی رحمت کی کوئی
انتہا نہیں جس پر رحم فرمائے تو تھوڑی چیز بھی بہت کثیر ہے۔
اہل محشر کی قسمیں
وقوع قیامت کے بعد کل آدمیوں کی تین قسمیں کر دی جائیں گی:
(۱)دوزخی(۲)عام جنتی(۳)خواص مقربین جو جنت کے نہایت اعلیٰ درجات پر فائز
ہوں گے۔ دوزخی جنہیں قرآن کریم نے ’’اصحابُ الشمال‘‘ فرمایا ہے جو میثاق کے
وقت آدم علیہ السلام کے بائیں پہلو سے نکالے گئے عرش کی بائیں جانب کھڑے
کئے جائیں گے، اعمالنامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ فرشتے بائیں طرف سے
ان کو پکڑیں گے۔ ان کی نحوست اور بدبختی کا کیا ٹھکانا، اور عام جنتی جنہیں
قرآن مجید میں ’’ اصحاب الیمین‘‘ فرمایا گیا ہے اور جن کو اخذِ میثاق کے
وقت آدم علیہ السلام کے دائیں پہلو سے نکالا گیا تھا وہ عرشِ عظیم کے دائیں
طرف ہوں گے۔ ان کا اعمال نامہ بھی داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور فرشتے
بھی ان کو د ا ہنی طرف سے لیں گے۔ اس روزان کی خوبی ویمن و برکت کا کیا
کہنا حسن عشرت کے ساتھ باشان و شوکت ایک دوسرے کو دیکھ کر مسرور ودِلشاد
ہوں گے۔
شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دونوں گروہوں کی نسبت دیکھتا
تھا۔ کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنی د ا ہنی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں اور
بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں اور خواص مقربین جنہیں قرآن کریم میں
’’سابقون‘‘ فرمایا وہ حق تعالیٰ کی رحمتوں اور مراتب قرب ووجاہت میں سب سے
آگے ہیں۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ اہل محشر کی ایک سو بیس صفتیں ہوں گی جن میں
چالیس پہلی امتوں کی اور اسی امت مرحومہ کی۔ حساب کتاب سے فراغت کے بعد سب
کو پل صراط سے گزرنے کا حکم ہوگا۔
صراط کہ پشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا، بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے
زیادہ تیز ہوگا، ہر نیک و بد، مجرم و بری، مومن و کافر کا اس پر سے گزر
ہوگا کیونکہ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے۔ مگر نیک سلامت رہیں گے اور اپنے
اپنے درجے کے موفق وہاں سے صحیح سلامت گزر جائیں گے۔ جب ان کا گزر دوزخ سے
ہوگا تو دوزخ سے صدا اٹھے گی کہ اے مومن! گزر جا کے تیرے نور نے میری لپٹ
سرد کر دی پل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے (اللہ ہی جانے کے وہ کتنے
بڑے ہونگے)لٹکتے ہوں گے جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اسے پکڑ لیں گے مگر
بعض تو زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے۔
سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر گزر فرمائیں گے۔ پھر اور
انبیاء و مرسلین پھر یہ امت اور پھر اور امتیں گزریں گی۔
پل صراط سے مخلوق کا گزر
حسبِ اختلاف اعمال پلصراط پر سے لوگ مختلف طرح سے گزریں گے۔ بعض تو ایسی
تیزی کے ساتھ گزریں گے جیسے بجلی کا کوندا، کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہو
گیا۔ اور بعض تیز ہو ا کی طرح، کوئی ایسے، جیسے پرند اڑتا ہے اور بعض ایسے
جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض ایسے آدمی دوڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض گھسٹتے
ہوئے اور بعض چیونٹی کی چال، پار گزریں گے۔
حوضِ کوثر
حشر کے دن اس پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی رحمت حوضِ کوثر
ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت ہوا ہے۔ اس حوض کی مسافت ایک
مہینے کی راہ ہے ۔ اس کے کناروں پر موتی کے قبے ہیں، اس کی مٹی نہایت خوشبو
دار مشک کی ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہدے سے زیادہ میٹھا اور
مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اس پر برتن ستاروں سے بھی گنتی میں زیادہ ہیں ، جو
اس کا پانی پئے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنی
امت کو سیراب فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے ، آمین
مسلمان جنت میں اور کافر دوزخ میں جائیں گے۔ اہل ایمان کے ثواب اور انعامات
کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بنائی ہے جس میں تمام قسم کی جسمانی و
روحانی لذتوں کے وہ سامان مہیا فرمائے ہیں جو شاہانِ ہفت اقلیم کے خیال میں
بھی نہیں آسکتے ۔ اسی کا نام جنت و بہشت ہے۔ اور گناہگاروں کے عذاب و سزا
کے لیے بھی ایک جگہ بنائی ہے جس کا نام جہنم یا دوزخ ہے۔ اس میں تمام قسم
کے اذیت دہ طرح طرح کے عذاب مہیا کئے گئے ہیں، جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے
ہوتے اور حواس گم ہو جاتے ہیں۔ البتہ کچھ مدت کے بعد اپنے اپنے عمل کے
موافق نیز انبیاء و ملائکہ و صالحین کی شفاعت سے اور آخر میں براہِ راست
ارحم الرحمین کی مہربانی سے وہ سب گناہگار جنہوں نے سچے اعتقاد کے ساتھ
کلمہ پڑھا تھا دوزخ سے نکالے جائیں گے۔ صرف کافر باقی رہ جائیں گے اور دوزخ
کا منہ بند کر دیا جائے گا، جنتیوں کے چہرے سفید اور تروتازہ ہوں گے اور
دوزخیوں کے سیاہ و بے رونق اور آنکھیں نیلی، جنت و دوزخ کو بنے ہوئے ہزار
ہا سال ہوئے اور وہ اب موجود ہیں۔
اعراف
جنت اور دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ کی دیوار ہے۔ یہ دیوار جنت کی نعمتوں کو
دوزخ تک اور دوزخ کی کلفتوں کو جنت تک پہنچنے سے مانع ہوگی ۔ اسی درمیانی
دیوار کی بلندی پر جو مقام ہے اس کو اعراف کہتے ہیں۔
اور اکثر سلف وخلف سے یہ بات منقول ہے کہ اہل اعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی
نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں۔ جب اہل جنت کی طرف دیکھیں گے تو انھیں سلام
کریں گے جو بطور مبارک باد ہوگا ، او ر چونکہ ابھی خود جنت میں داخل نہ ہو
سکے اس کی طمع او ر آرزو کریں گے اور انجام کا راصحابِ اعراف جنت میں چلے
جائیں گے۔
قیامت کے روز امتِ محمدیہ کی شناخت
میدان حشر سے جس وقت پلصراط پر جائیں گے اندھیرا ہوگا۔ تب اپنے ایمان اور
اعمال صالحہ کی روشنی ساتھ دے گی اور ایمان و طاعت کا نور اسی درجہ کا ہوگا
جس درجہ کا ایمان و عمل ہوگا۔ یہی نور جنت کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا اور
اس امت کی روشنی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دوسری امتوں کی روشنی
سے زیادہ صاف اور تیز ہوگی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
کہ قیامت کے دن میری امت اس حالت میں بلائی جائے گی کہ منہ اور ہاتھ پاؤں
آثارِ وضو ء سے چمکتے ہوں گے تو جس سے ہوسکے چمک زیادہ کرے۔
دخولِ جنت و دوزخ
جب سب جنتی جنت میں داخل ہو لیں گے اور جہنم میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے
جن کو ہمیشہ کے لیے اس میں رہنا ہے اور اس وقت جنت دوزخ کے درمیان موت کو
مینڈھے کی طرح لاکھڑا کریںگے۔ پھر منادی جنت والوں کو پکارے گا، وہ ڈرتے
ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو
۔ پھر جہنمیوں کو پکارے گا وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت
سے رہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اس پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے
ہاں! یہ موت ہے ، وہ زبح کر دی جائے گی اور فرمایا جائے گا کہ اے اہل جنت
ہمیشگی ہے اب مرنا نہیں، اور اے اہل نار!ہمیشگی ہے اب موت نہیں، اس وقت اہل
جنت کے فرح و سرور کی انتہا نہ ہوگی۔ ان کے لیے خوشی پر خوشی ہے، اسی طرح
دوزخیوں کے رنج و غم کی نہایت نہ ہوگی، ان کے لیے غم بالائے غم ہے۔
( نسال اللہ العفو و العافیۃ فی ا لدین وا لد نیا والاٰخرۃ )
آخرت میں اللہ عزوجل کا دیدار
اللہ عزوجل کا دیدار جو آخرت میں ہر سنی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع ہے،
بلاکیف ہے یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے؟ جس چیز
کو دیکھتے ہیں اس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے
ولے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے ، دائیں بائیں ، آگے یا پیچھے
اور ان کا دیکھنا ان سب باتوں سے پاک ہوگا، پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی
تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں انشاء اللہ تعالیٰ جب دیکھیں گے
اس وقت بتادیں گے او ر وقت دیدار نگاہ اس کا احاطہ کر لے جسے ادراک بھی
کہتے ہیں، یہ محال ہے اور ناممکن الوقوع، اس لیے کہ احاطہ اسی چیز کا ہو
سکتا ہے جس کے حدود وجہات ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لیے حدو جہت محال ہے تو
اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ہے۔ یہی مذہب ہے اہلسنت کا ، معتزلہ وغیرہ
گمراہ فرقے ادراک ورؤیت میں فرق نہیں کرتے اس لیے وہ اس گمراہی میں مبتلا
ہوگئے کہ انھوں نے دیدار الٰہی کو محالِ عقلی قرار دیا جاتا حالانکہ جیسا
کہ باری تعالیٰ بخلاف تمام موجودات کے بلا کیف وجہت جانا جاسکتا ہے ایسے ہی
دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ غرض آخرت میں مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کا دیدار اہل
سنت کا عقید ہ اور قرآن وحدیث واجماع صحابہ وسلفِ امت کے دلائل کثیرہ سے
ثابت ہے ۔
اگر دیدار الٰہی ناممکن ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام دیدا ر کا سوال نہ
کرتے اور نہ ان سے جواب میں یہ فرمایا جاتا کہ : ان استقر مکانہٗ فسوف
ترانی اور احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ رب عزوجل جنت کے باغوں میں سے ایک
باغ میں تجلی فرمائے گا اور جنتیوں کے لیے نور کے موتی کے، یاقوت کے، زبر
جد کے اور سونے چاندی کے میز بچھائے جائیں گے۔ اور ان میں کا ادنیٰ مشک
وکافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا۔ اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں، اپنے گمان میں کر
سی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے اور خدا کا دیدار ایسا صاف
ہوگا کہ جیسے آفتاب اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے
دیکھتا ہے کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانع نہیں اور اللہ عزوجل ہر ایک
پر تجلی فرمائے گا اور ان میں بھی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب میں معزز ہے۔
وہ اس کے وجہ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرف ہوگا۔ سب سے پہلے دیدار
الٰہی حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگا اور اللہ عزوجل کا دیدار وہ
اعلیٰ و اعظم نعمت الٰہی ہے کہ اس کے برابر کوئی نعمت نہیں، جسے ایک بار
دیدار میسر ہوگا ہمیشہ ہمیشہ اس کے ذوق میں مستغرق رہے گا اور کبھی نہ
بھولے گا۔
اللھم ارنا وجھک الکریم بجاہ حبیبک العظیم علیہ واعلیٰ اٰلہٖ واصحابہ افضل
الصلوٰۃ والتسلیم ط
آمین |