موت اور قبر کابیان

ہر شخص کی جتنی عمر مقرر ہے نہ اس سے کچھ گھٹے نہ بڑھے۔ جب وہ عمر پوری ہو جاتی ہے۔ تو ملک الموت (موت کا فرشتہ) یعنی حضرت عزرائیل علیہ السلام قبض روح کے لیے آتے ہیں اور اس کی جان نکال لیتے ہیں۔ اسی کو موت کہتے ہیں

موت کے وقت
جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے مرنے والے کو اپنے دائیں بائیں فرشتے ہی فرشتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے نظر آتے ہیں اور کافر کے ادھر ادھر عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں۔ مسلمان آدمی کی روح فرشتے عزت کے ساتھ لے جاتے ہیں اور کافر کی روح کو ذلت اور حقارت (نفرت) سے لے جاتے ہیں۔

مرنے کے بعد
روحوں کے رہنے کے لیے مقامات مقر ر ہیں۔ نیکوں کے علیحدہ، بدوں کے علیحدہ ، کسی مسلمان کی روح قبر پر رہتی ہے، کسی کی چاہ زمزم شریف میں، کسی کی آسمان و زمین کے درمیان ، کسی کی پہلے دوسرے ساتویں آسمان تک کسی کی آسمانوں سے بھی بلند ۔

کافروں کی خبیث روحیں بعض ان کے مرگھٹ یا قبر میں رہتی ہیں۔ بعض کی پہلی دوسری ساتویں زمین تک اور بعض کی اس سے بھی نیچی رہتی ہیں۔

موت کے بعد روح کو جسم سے تعلق
مرنے کے بعد روح کو جسم سے تعلق باقی رہتا ہے۔ بدن پر جو گزرے گی روح اس سے ضرور آگاہ ہوگی۔ ثواب ملے گا تو روح کو راحت ہوگی، جسم پر عذاب ہوگا تو روح کو تکلیف ہوگی۔

موت یہی ہے کہ روح جسم سے جدا ہو جائے نہ یہ کہ روح بھی مر جاتی ہو جو روح کو فنا مانے بد مذہب و گمراہ ہے۔

جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں اس وقت قبر اس کو دباتی ہے۔ اگر مردہ مسلمان ہے تو اس کا دبانا ایسا ہوتا ہے۔ جیسے ماں پیار میں اپنے بچے کو زور سے چپٹا لیتی ہے اور اگر کافر ہے تو اس زور سے دباتی ہے کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر سے ادھر ہو جاتی ہے۔

یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ بدن آدمی کا ہو یا کسی جانور کا محض باطل ہے اور اس کا ماننا کفر ، یہ تو ہندوؤں کا عقیدہ ہے جسے وہ تنا سخ یا آواگون کہتے ہیں

جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں۔ تو مردہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اس وقت اس کے پاس دو فرشتے اپنے بڑے بڑے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں۔ ان کی شکلیں ڈراؤنی، آنکھیں سیاہ اور نیلی اور دیگ کے برابر دہکتی ہوئی اور بال سر سے پاؤں تک ہیں۔ ان میں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ یہ دونوں مردے کو جھڑک کر اٹھاتے اور نہایت سختی سے اس سے سوال کرتے ہیں۔

پہلا سوال من ربکتیرا رب کون ہے؟دوسرا سوال مادینکتیرا دین کیا ہے؟پھر حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی طرف اشارہ کرکے تیسرا سوال کرتے ہیں۔ ما کنت تقول فی ھٰذا الرجل۔ ان کے بارے میں تو کیا کہتا تھا
مردہ مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گاربی اللہ میرا رب اللہ ہے۔اور دوسرے سوال کا جواب دے گا دینی الاسلام میرا دین ا سلام ہے۔ اور تیسرے سوال کا جواب دے گا ھورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں

فرشتے جواب پاکر کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہوتا تھا کہ تو یہی جواب دے گا۔ اس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاؤ اور جنت کا لباس پہناؤ ۔ جنت کی طرف دروازے کھول دو چنانچہ تاحد نظر (جہاں تک نگاہ پھیلتی ہے وہاں تک) اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جس سے جنت کی ہوا اور خوشبو آتی رہتی ہے اور فرشتے اس سے کہتے ہیں اب تو آرام کر، مسلمان کے نیک اعمال اچھی اور پاکیزہ شکل پر ہو کر اسے انس پہنچاتے رہیں گے۔

مردہ اگر کافر یا منافق ہے تو وہ ہر سوال میں کہے گا افسوس ! مجھے تو کچھ معلوم نہیں، میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا خود بھی کہتا تھا۔

اس وقت ایک پکارنے والا (منادی) آسمان سے پکارے گا کہ یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ، آگ کا لباس پہناؤ اوردوزخ کی طرف دروازہ کھول دو۔ اس کی گرمی اور لپٹ اس کو پہنچے گی، پھر اس پر عذاب کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے جو لوہے کے گرز(ہتھوڑے) سے اسے مارتے رہیں گیااور سانپ اور بچھو اور اس کے برے اعمال کتا یا پھڑیا یا اور شکل بن کر اسے ایذا (تکلیف) و عذاب پہنچاتے رہیں گے۔

بعض گناہگاروں پر ان کی نافرمانی کے لائق قبر میں بھی عذاب ہوگا، پھر اس کے پیران عظام یا مذہب کے امام یا اولیائے کرام کی شفاعت سے یا محض رحمت خداوندی سے جب خدا چاہے گا پائیں گے۔

مردہ دفن کیا جائے یا نہ کیا جائے یا اسے کوئی جانور کھا جائے ہر حال میں اس سے سوالات ہوں گے اور وہیں اسے ثواب یا عذاب پہنچے گا۔

زندوں کے نیک اعمال سے مردوں کو ثواب ملتا اور فائدہ پہنچتا ہے۔ قرآن مجید یا درود شریف یا کلمہ طیبہ پڑھ کر یا کوئی صدقہ خیرات کرکے اس کا ثواب مردوں کو بخشنا چاہیے۔ اسے ایصالِ ثواب کہتے ہیں۔ حدیث شریف سے اس کا جائز ہونا ثابت ہے۔
: بخاری شریف، مسلم شریف،ترمذی شریف، ابن ماجہ شریف، ابوداؤد شریف، جلاؤالصدور
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381571 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.