پاکستان کا دکھ

(Sibtain Zia Rizvi, Islamabad)

ہم میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے دکھ ہیں۔ انسانی زندگی غموں اور خوشیوں کا ایک امتزاج ہے۔ مارے دکھوں کی نوعیت کچھ الگ ہوتی ہے۔ کسی کو غم روزگار ہے تو کسی کو صحت و سلامتی کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب اپنے شب و روز اور اپنے اپنے مسائل میں بری طرح الجھے ہوۓ ہیں۔ ایسے میں ہمیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہے۔ ہم ہر سال چند جھنڈے جھنڈیوں باجوں نغموں سکول کالج کی چند بچیوں سے ڈانس کروا کر چند تقاریر کر کے سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہو گیاہے ۔ ہم نے پاکستان پر کوئی بہت احسانِ عظیم کر دیا ہے۔یہ تو انداز ہے زرا عوامی انداز میں یوم آزادی منانے کا۔ایک سرکاری انداز ہے وہ ہے سرکاری وسائل پر یوم آزادی منانا۔ یا کوئی بھی ملی اور سرکاری تقریب منانا جس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ذاتی جیب سے غلطی سے بھی کوئی پیسہ نہ خرچ ہو جاۓ۔ من جملہ اخراجات ملکی وسائل سے ہی پورا کرنے ہیں۔ اور ان تقریبات کی کی آڑ میں ملکی وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔غریب اور مقروض ملک میں پروٹوکول جیسی لعنت پر اربوں روپے کا ایندھن برباد کیا جاتا ہے ۔یہ ہیں پاکستان کے دکھ۔ جس بندے کو محلے میں سائیکل کوئی نہ دے سرکاری گاڑی کو وہ باپ دادا کی وراثت سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔یہاں عہدوں اور سرکاری حیثیت کا بھی بے جا استعمال ہوتا ہے۔امیر امیر تر اور بیچارہ غریب غریب تر ہو رہا ہے ۔موجودہ حالات میں ایک عام پاکستانی دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا ۔اس ملک میں اب لوگ غربت سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ کہیں ماں اپنی کم سن بیٹی کو لے کر نہر میں چھلانگ لگا رہی ہے۔ اور کہیں سکول کی فیس مانگنے پر باپ اپنی بیٹی کو ذبح کر رہا ہے۔ یہ چھہتر سالہ پاکستان کے اندر بسنے والی عوام کی بس ایک جھلک ہے۔ ٹی وی چینل پر ٹاک شوز اور پریس کانفرنشز میں تو سب اچھا ہی ملے گا۔ ایٹمی ملک ہے اور مٹھی بھر دہشت گردوں اور کچے کے ڈاکوؤں نے عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔اور جو لوگ اس ملک پر مسلط اور اس کے وسائل پر قابض ہیں انہوں نے ان وسائل کو اس بے دردی سے برباد کیا ہے جیسے بہار کے سبزے کو اونٹ چرتا ہے۔ وہ چرتا کم اور برباد زیادہ کرتا ہے۔ کچھ کھایا۔ کچھ لتاڑا اور روندا۔ باقی پر لیٹ لیٹ کر برباد کیا۔ آج کا نوجوان کیوں اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر دوسرے ممالک جا رہا ہے ۔ بیروزگاری ہے مہنگائی ہے ۔ بے یقینی ہے۔ عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔عوامی مسائل کے کیسز کو لٹکا دیا جاتا ہے۔اور سب سے خطرناک بات کہ جو بولتا ہے اس کا گلا دبا دیا جاتا ہے۔ یعنی یہ کرپٹ سسٹم اپنے اوپر تنقید بھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ مہذہب معاشروں میں ایسا کب ہوتا ہے۔ عام آدمی کے مسائل دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔جبکہ سارا زور اقتدار کو مضبوط کرنے اور اپنی بدعنوانیوں کے نشانات مٹانےاور سزا سے بچنے کےمحفوظ راستے بنانے پر لگایا جاتا ہے۔ پاکستان اپنے ان تمام مسائل اور دکھوں کے ساتھ اپنی آزادی کے چھہتر سال پورے کر گیا۔ اللہ اس ملک کی حفاظت فرماۓ۔اور حکمرانوں کو اس کے مسائل سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔باقی ہم عوام کا کام ٹیکس دینا ہے۔ جو ہم دے رہے ہیں اور مزیددیں گے اور بے دریغ دیں گے۔
تحریر۔ سبطین ضیا رضوی۔

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 30 Articles with 19883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.