اسلام کے بنیادی عقیدے تین ہیں۔
توحید ،رسالت اور معاد یعنی قیامت باقی اعتقادی باتیں انھیں کے اندر آجاتی
ہیں دل سے تصدیق (ماننا) اور زبان سے اس امر کا اقرار کرنا کہ ہماری اور
تمام عالم کی پیدا کرنے والی ایک ذات ہے اور وہ اللہ رب العزت ہے۔ اس کا
کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں، نہ حکومت میں نہ عبادت میں۔ اللہ
تعالیٰ کا موجود ہونا آفتاب سے زیادہ روشن ہے۔ اس کی ہستی کا یقین ہر شخص
کی فطرت میں داخل ہے۔ خصوصاً مصیبتوں میں ، بیماریوں میں موت کے قریب ،
اکثر یہ فطرت اصلیہ ظاہر ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے منکرین بھی خدا ہی کی طرف
رجوع کرنے لگتے ہیں اور ان کی زبانوں پر بھی بے ساختہ خدا کا نام آہی جاتا
ہے تھوڑی سی عقل والا انسان بھی دنیا کی تمام چیزوں پر نظر کرکے یقین کر لے
گا کہ بیشک یہ آسمان و زمین ، ستارے اور سیارے ، انسان و حیوان اور تمام
مخلوق کسی نہ کسی کے پید ا کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ آخر کوئی ہستی تو ہے جس
نے ان کو پیدا کیا اور جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے۔ جب ہم کسی تخت
یا کرسی وغیرہ بنی ہوئی چیزوںکو دیکھتے ہیں تو فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ ان
کو کسی نہ کسی کاریگر نے بنایا ہے۔ اگرچہ ہم نے اپنی آنکھ سے بناتے نہ
دیکھا۔ ایک عرب کے بدو نے خوب کہا کہ اونٹ کی مینگنی دیکھ کر اونٹ کا یقین
ہو جاتا ہے۔ اور نقش قدم دیکھ کر چلنے والے کا ثبوت ملتا ہے تو پھر ان
برجوں والے آسمان اور کشادہ راستہ والی زمین کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے
صانع عالم ہونے کا یقین کیونکر نہ ہوگا؟ فی الواقع آسمان و زمین کی پیدائش
، رات دن کا اختلاف ، ستاروں کا خاص نظام، ان کی مخصوص گردش، اس بات کی
کھلی ہوئی دلیلیں ہیں کہ ان کا کوئی پیدا کرنے والا ضرور ہے۔ جو بڑی زبردست
قوت و قدرت والا اور بہت بڑا حکیم اور بااختیار ہے جس کے قبضہ قدرت سے یہ
چیزیں نکل نہیں سکتیں۔ تھوڑی سی عقل والا انسان بھی دنیا کی تمام چیزوں پر
نظر کرکے یقین کر لے گا کہ بیشک یہ آسمان و زمین ، ستارے اور سیارے ، انسان
و حیوان اور تمام مخلوق کسی نہ کسی کے پید ا کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ آخر
کوئی ہستی تو ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف
کرتا ہے۔ جب ہم کسی تخت یا کرسی وغیرہ بنی ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو
فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ ان کو کسی نہ کسی کاریگر نے بنایا ہے۔ اگرچہ ہم نے
اپنی آنکھ سے بناتے نہ دیکھا۔ ایک عرب کے بدو نے خوب کہا کہ اونٹ کی مینگنی
دیکھ کر اونٹ کا یقین ہو جاتا ہے۔ اور نقش قدم دیکھ کر چلنے والے کا ثبوت
ملتا ہے تو پھر ان برجوں والے آسمان اور کشادہ راستہ والی زمین کو دیکھ کر
اللہ تعالیٰ کے صانع عالم ہونے کا یقین کیونکر نہ ہوگا؟ فی الواقع آسمان و
زمین کی پیدائش ، رات دن کا اختلاف ، ستاروں کا خاص نظام، ان کی مخصوص گردش،
اس بات کی کھلی ہوئی دلیلیں ہیں کہ ان کا کوئی پیدا کرنے والا ضرور ہے۔ جو
بڑی زبردست قوت و قدرت والا اور بہت بڑا حکیم اور بااختیار ہے جس کے قبضہ
قدرت سے یہ چیزیں نکل نہیں سکتیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ خدائے
تعالیٰ کی وحدانیت کا سبق دیتی ہیں مثلاً :
۱۔ والٰھکم الٰہ واحد لا الٰہ الا ھوالرحمٰن الرحیمط (البقرۃ:۱۶۳)
اور تمھارا خدا یک خدا ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں، بے انتہا کرم کرنے والا
بار بار رحم فرمانے والا۔
۲۔ شھداللہ انہ لا الٰہ الا ھوط والملٰٓ۔۔کۃ و الوا اعلمہ قآ ئما بالقسط
ط(آل عمران۱:۱۸)
اللہ کی گواہی ہے کہ بجز اس کے کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور اہل علم بھی
اس کے گواہ ہیں اور وہ عدل سے انتظام رکھنے والا ہے۔
۳۔ لو کان فیھمآ اٰلھۃ الا اللہ لفسدتاط (الانبیآء ۱:۱۸)
اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سواا اور بھی خدا ہوتے تو یہ دونوں برباد ہو
جاتے (بالفرض اگر کئی خدا ہوتے) ۔
۴۔ اذ لذھب کل الٰہ بما خلق ولعلٰی بعضھم علٰی بعض سبحان اللہ عما یصفون
(مومنون:۹۱)ط تب تو ہر ایک خدا اپنی مخلوق کو لے کر چل دیتا اور ہر ایک خدا
دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔ پاک ہے اللہ اس سے جو یہ کہتے ہیں ۔ توحیدکے چار مرتبے
ہیں:۱۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود نہ سمجھنا۔
۲۔ تمام روحانی اور مادی عالم کا خالق سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہ
جاننا۔۳۔ آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں میں تمام تدبیر اورتصرف
کو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے ساتھ مخصوص سمجھنا۔ ۴۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی
کو مستحق عبادت نہ سمجھنا۔ واجب الوجود ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کا وجود
ضروری اور عدم محال ہے۔ یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، جس کو کبھی فنا
نہیں، کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے جو خود
اپنے آپ سے موجود ہے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ قدیم وہ جو ہمیشہ
سے ہے اور ازلی کے بھی یہی معنی ہیں۔ باقی وہ جو ہمیشہ رہے گا اور اسی کو
ابدی بھی کہتے ہیں اور یہ تمام صفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے لیے ثابت
ہیں۔ جس طرح اس کی ذات قدیم، ازلی ابدی ہے اس کی صفات بھی قدیم ، ازلی ،
ابدی ہیں اور ذات وصفات کے سوا سب چیزیں حادث ہیں۔ جو عالم میں سے کسی چیز
کو قدیم مانے یا اس کے حادث ہونے میں شک کرے، وہ کافر و مشرک ہے جیسے آریہ،
کہ وہ روح اور مادہ کو قدیم جانتے ہیں یقینا مشرک ہیں۔ |