ریوڑ کے ساتھ نہ چلیں، اپنی زندگی کے کپتان بنیں

انسان نے ہمیشہ اپنی انفرادی حیثیت کو ترجیح دی ہے۔ تاریخ میں خواہ کوئی بھی معاشرہ ہو ہر انسان اجتماعی زندگی تو بسر کرتا رہا لیکن اندر سے اس کی تمنّا یہی رہی کہ وہ اپنی انفرادیت کو دوام بخشے۔چلئے آپ کی بات مان لیتا ہوں کہ جنگلوں میں جب انسان تنہائی کا شکار ہونے لگا تو اس نے سوشل اینیمل کا رویہ اپناتے ہوئے دوسروں سے راہ و رسم بڑھانے شروع کئے تاکہ تنہائی میں جنم لینے والی ڈیپریشن کی کیفیت کا مداوا کیا جاسکے۔ اس نے ایک معاشرہ تشکیل دیا اور تمام ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے موجودہ مقام پر پہنچ گیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں انسان کی جبلت میں ایک نئی تبدیلی نے جنم لیا ہے جیسا کہ پہلے لکھا گیا کہ شہر کی گہما گہمی اورپُر رونق زندگی سے اکتاہٹ کے بعد با حیثیت انسانوں نے خود ساختہ خانہ بدوشوں والی زندگی کا انتخاب کیا ہے یا پھر اسی طرز کی زندگی آبادی والے علاقوں میں مہنگی ترین زمین خرید کر خانہ بدوشوں کی طرز پر ایسا طرزِ زندگی اختیار کیا جو جنگلوں اور شہروں میں رہنے والے انسانوں کا ملغوبہ سا لگتا ہے۔ اسی طرز پر فلوریڈا کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی پُر تعیش زندگی کے بارے میں بتایا کہ امریکہ جیسی سُپر پاور مملکت میں وہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ دیگر لوگوں کی مانند نہایت اچھی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن حال ہی میں یعنی اس صدی کے شروع میں اس نے نوٹ کیا کہ معاشی کسمپُرسی نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں اور چند ڈالروں کی خاطر دوسرے کی جان لینا معمول بننے لگا جس میں اس کےبیشتر ٹیکسی چلانے والے دوستوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو اس کو بھی اپنی جان کا خطرہ محسوس ہونے لگا اور رات کو کام پر جاتے وقت والدہ و بیوی نے اس کی خیریت سے واپس آنے کی دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ دن رات محنت اور کفایت شعاری کی زندگی گذارنے کے باعث اس کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی، ماں کا انتقال ہوگیا ، اولاد کوئی تھی نہیں، بیوی ایک موذی بیماری میں مبتلا ہوگئی تو گھبرا کر اس نے زندگی سے فرار اختیار کرنے کی خاطر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پیدائشی وطن کو خیر باد کہہ کر کسی اور ملک میں ہجرت کر جائے۔ اپنے ٹیکسی چلانے والوں میں اس نے ایک فلپائین کے شخص سے سن رکھا تھا کہ فلپائن کے جنگلوں مین زندگی نہایت پر سکون اور بے خطر سی ہے جب کہ اس کا وہ فلپائنی شخص بھی ایک ڈکیتی کی واردات کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا چنانچہ اس نے اپنے اکیلے پن اور ایک کثیر رقم کی ملکیت ہونے کی حیثیت سے فائدہ اٹھایا اور فلپائن کی جانب رختِ سفر باندھا۔ یہاں پہنچ کر چند روز منیلا جیسے شہر میں رہنے کے باوجود سکوں کی زندگی نہ پاسکا۔ اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا تو دور دراز جنگلوں میں نکل گیا اور وہیں قدیم تاریخی لوگوں کے ساتھ اپنےخوابوں کی تعبیر حاصل کرتے ہوئے اس نے اپنی ایک موٹر بوٹ میں بیٹھے انٹرویو میں تاریخی جملہ کہا :
"ریوڑ میں ایک پُر خطراجتماعی زندگی گذارنے کے بجائے اپنی زندگی کا کپتان ہونا کہیں زیادہ پُر سکوں اور بہتر زندگی کی علامت ہے"


Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 183 Articles with 150503 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More