"مرید!یہ احسان کرنے والا لوگوں کو کیوں بتاتا ہے ؟ "باباجی!کیونکہ پتر حوصلہ نہیں ہوتا برداشت کا ،وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح لوگ اس کی تعریف کریں گے ۔۔۔۔اور لوگ کرتے بھی ہیں ۔ "مرید! پھر بابا جی یہ تعریف کی بھوک ہوئی! "باباجی!ہاں پتر یہ بھوک ہی ہے لیکن وہ کم ظرف اگر یہ سمجھ لے کہ اس طرح بھوک تو مٹ جائے گی لیکن رب العالمین کے حضور اس کا یہ احسان واپس اس کے منہ پر مار دا جائے گا تو وہ کبھی اپنی زبان پر اپنے کیے ہوئے احسان کا ذکر نہ لائے ۔ "مرید!بے شک بابا جی ہم دین سے دور ہیں ،اور اگر سرکار احسان مند کسی سے ذکر کریں کہ فلاں شخص نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے تو پھر کیسا ہے ؟ "باباجی!یہ بہت ہی اچھی بات ہے ،کہ احسان مند اپنے محسن کا تذکرہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے دوسروں میں نیکی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لہذا اس کا ذکر بھی روایات میں ملتا ہے کہ احسان کرنے والا خاموشی کرے اور جس پر احسان کیا جائے وہ لوگوں کو بتائے تاکہ معاشرے میں ایک دوسرے کے درد کو سمجھنے اور احسان کرنے کی فضا پیدا ہو۔ "مرید!تو حضور احسان کرنے والے کا ذکر غلط اور احسان مند کا ذکر اچھا کیسے ہوا؟ "باباجی!پتر احسان کرنے والا اگر ذکر کرے گا تو اس کے اندر تکبر و غرور پیدا ہو گا جو میرے رب کو پسند نہیں ،اور پھر اس طرح عزت نفس مجروح ہوتی ہے ،جبکہ احسان مند ذکر کرے گا تو عاجزی پیدا ہو گئی ،عزت نفس مجروح نہیں ہو گئی ،معاشرے کی نظر میں عزت و احترام ملے گا اور لوگوں میں دوسروں میں جذبہ پیدا ہو گا کہ ہم بھی کسی ضرورت مند کے کام آ سکیں ۔
|