مولانا نزیرالحق دشتی نقشبندی نے علمی ادب میں کیا قردار ادا کیا؟ اور وہ کس شخصیت کے مالک تھے آج میں مولانا نزیرالحق دشتی صاحب کے اخلاص بیان کرونگا کہ آخر وہ چھوٹے گاؤں میں رہ کر اتنا کیسے لکھتے تھے ۔ کلمی قرآن لکھنا بہت مشکل ہے اور مولانا صاحب نے 90 سال کی عمر میں صرف چھے مہینے کے اندر اندر لکھا اس وقت وہ کینسر جیسے موضی مرض میں مبتلا تھے اور پنجاب حکومت انھیں کینسر کی گولیاں مفت میں دے رہی تھی ہر چھ مہینے بعد انھیں نشتر ہسپتال ملتان جانا پڑتا تھا اور کینسر کی گولیاں لے آتے تھے ۔ مولانا نزیرالحق دشتی نقشبندی صاحب بہت ہی اچھے اخلاص کے مالک تھے جو بندہ ان سے ایک دفعہ ملتا تھا اس کی ہمیشہ یہی خواہش رہتی تھی کہ مولانا صاحب سے ملیں اور بیٹھے رہیں انکے شاگرد کئی اداروں میں دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں کوئی بھی غریب ان کے در سے خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا وہ کہتے تھے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے جو ہے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور یہ غریبوں کےلیے ہے وہ اپنے دور میں علاقے کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔ انکے کئی آرٹیکلز روزنامہ خبریں سمیت کئی اخبارات اور کئی رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں بی بی سی نیوز میں بھی کئی آرٹیکلز شائع ہوچکے ہیں ان کے ہاں میڈیا سے منسلک صحافی ، نیوز رپورٹر آتے رہتے تھے اور ان سے انٹرویو کے کر اپنے چینل کی زینت بناتے تھے وہ عالم دین مفکر، مصنف تھے مولانا نزیرالحق دشتی نقشبندی کو اردو ، بلوچی، سرائیکی، پنجابی، فارسی ، عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھی۔ اور اس کے علاؤہ قرآن مجید کا بلوچی ترجمہ لکھنا بہت مشکل کام انھوں نے لکھا وہ زیادہ تر قوموں کے بارے میں اپنے کتابیں لکھتے تھے اور میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین
|