ایک بہت پرانی بات اچانک یاد آ گئی ہے ۔ اپنے بچپن میں اپنے بڑوں سے ایک بات سنا کرتے تھے کہ کبھی کہیں کوئی سانپ نظر آئے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اس کی طرف دیکھ کر کہو کہ تجھے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم لگے آگے نہیں بڑھنا واپس چلا جا ۔ وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا اور چپ چاپ چلا جائے گا ۔ کمسنی اور ناسمجھی کا دور تھا اتنی سمجھ تو تھی نہیں کہ ان سے پوچھا جاتا کہ خود آپ کے ساتھ کبھی ایسا تجربہ ہوا ہے کیا کوئی مثال موجود ہے کہ سانپ سے واسطہ پڑا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا واسطہ دینے پر اس نے جاں بخشی کر دی ہو؟ اب تھوڑی عقل آئی ہے اور ذہن میں سوال و اشکال پیدا ہوئے ہیں تو جواب دینے کے لئے اُن بڑوں میں سے کوئی بھی دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ نہ ہی زندگی میں کبھی سانپ سے سامنا ہوا (سوائے سپیرے کی پٹاری میں جھومتے لہراتے پالتو مست سانپ کے) کبھی ایسا موقع ہی نہیں آیا کہ سانپ اچانک نمودار ہوتا تو اس کے حملہ آور ہونے سے پہلے بزرگوں کی وہ نصیحت یاد آتی حواس بھی قائم رہتے اور ہم وہ قسم والی ترکیب آزما کر دیکھتے ۔ کیا آپ نے بھی یہ بات سنی ہے اس مفروضے میں کتنی حقیقت ہے؟ کس بنیاد پر قائم کیا گیا تھا کیونکہ سانپ کے تو کان ہی نہیں ہوتے وہ تو سن ہی نہیں سکتا وہ صرف زمین پر کوئی ارتعاش ہونے کی صورت میں اسے اپنے جسم پر محسوس کر سکتا ہے ۔ اور سانپ جو بین کی لے پر جھومتا لہراتا ہے تو وہ بھی اس کی آواز پر نہیں بلکہ حرکت پر خود بھی اپنے سر کو ویسے ہی ہلاتا ہے ۔ پھر اسی طرح سے یہ مفروضہ بھی کہ سانپ کو مارنے والے شخص کا عکس سانپ کی آنکھوں میں جامد ہو جاتا ہے جو اس کی مادہ دیکھتی ہے اور پھر اپنے زوج کے قاتل کو ڈھونڈ نکالتی ہے اور اسے ڈس کر انتقام لے لیتی ہے اس لئے سانپ کو مارنے کے بعد اس کا سر اچھی طرح کچل دینا چاہیئے تاکہ اس کی آنکھوں میں کوئی عکس محفوظ نہ رہ جائے ۔ کوبرا نسل کے ناگ اور ناگن کے آپس کے پیار اور سو برس عمر پوری ہو جانے پر روپ بدلنے کا اختیار اور ترجیحاً انسانی روپ دھارنے جیسی اساطیری لوک داستانوں پر برصغیر پاک و ہند میں بہت سی فلمیں بھی بنائی گئیں ۔ اس موضوع پر بہت پہلے کبھی سب رنگ ڈائجسٹ میں ایک بڑی ہی اعلیٰ درجے کی تحریر پڑھی تھی جس کے مطابق کسی لنگڑے شخص کا روزی روزگار ہی سانپ پکڑنے پالنے اور بیمار یا زخمی سانپوں کے علاج و معالجے سے وابستہ تھا ۔ مگر اس کی بیوی اپنے شوہر کے اس کاروبار سے سخت نالاں تھی اور ایک ناگن سے اس کے بہت زیادہ التفات کی بناء پر اس سے ایسے ہی حسد کرنے لگی تھی جیسے وہ اس کی سوکن ہو ۔ ناگن بھی گویا اس سے نفرت کرتی تھی اور ایک روز موقع پا کر اسے ڈس لیتی ہے ۔ سب رنگ ڈائجسٹ میں ہی پڑھی ہوئی ایک اور بہت دلچسپ کہانی کا مختصر سا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ کسی لڑکی کو اپنے بال بہت لمبے اور گھنے کرنے کا شوق تھا اور اسی جستجو میں کہیں سے اسے ایک نسخہ ہاتھ لگ گیا جس کے مطابق کوئی سانپ جس کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا کہ وہاں کیا لکھا تھا، تو اس کو چیر کر اس میں جَو بھر کر کسی کیاری میں بو دیا جائے اور پانی دیتے رہیں ۔ کچھ عرصہ بعد اس میں کونپلیں پھوٹ جائیں گی اور انہی کونپلوں سے بالوں کو دھویا جائے تو وہ بہت تیزی سے بڑھیں گے ۔ لڑکی نے کسی طرح اس نسخے کو ممکن بنایا اور اس پر عملدرآمد شروع کیا پھر واقعی اس کے بال بہت لمبے اور گھنے ہو گئے مگر سانپوں نے وہ گھر دیکھ لیا اور گھر والوں کا جینا حرام اور نیندیں بھی ۔ ایک عذاب نے آ لیا پھر آخر میں شاید وہی لڑکی خود کئی سانپوں کے ایک ساتھ حملے میں ہلاک ہو جاتی ہے ۔ ذرا ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ کہانی کا انجام کیا ہوا تھا؟ اچھا، لکھتے لکھتے ہی دو چار اور بھی قصے یاد آ گئے ہیں مگر بات ویسے ہی کافی لمبی ہو گئی ہے کہیں بیزار کُن بھی نہ ہو جائے اس لئے ابھی اُن کو رہنے دیتے ہیں باقی کا ذکر پھر کبھی سہی ۔
|