بلوچستان کے دوسرا بڑا تجارتی شہر چمن جن میں نو لاکھ سے زائد نفوس آباد ہے۔ 90 فیصد سے زائد شہریوں کے ذریعہ آمدن باڈر پار کرکے کاروبار کرنے کے ساتھ منسلک ہیں۔ پاک افغان بارڈر چمن پر روزانہ 20 ہزار لوگوں سے لے کر 30 ہزار شہریوں تک آمدورفت ہیں۔ حال ہی میں گورنمنٹ اف پاکستان اعلان کیا ہے کہ مہاجرین کو یکم نومبر تک مکمل انخلاء اور بارڈرز پر مکمل پاسپورٹ نظام قائم کیا جائے گا۔ لیکن اس فیصلے سے اہلیان چمن کے لیے بہت سے مصائب اور مشکلات کھڑی کر دی ہیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ، بدامنی کی خدشات اور رشتہ داروں کے ساتھ روابط کا خاتمہ شامل ہے۔ واضح رہیں کہ چمن شہر بارڈر سے پانچ کلومیٹر فاصلہ دور پر واقع ہیں بارڈر کے دونوں اطراف پر ایک ہی قوم آباد ہیں جن کے زمینیں ، کاروبار اور رشتے ایک اور مشترک ہیں اس کو علیحدہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ دنیا میں بہت ایسے علاقے موجود ہیں جن میں پاسپورٹ کے بجائے راہداری نظام سے لوگ آمدورفت کرتے ہیں۔ جب 26 مئی 1879 کو ڈیورنڈ لائن خط کھینچا گیا اس وقت برٹش گورنمنٹ کے انگریزوں نے یہ کہا تھا کہ اس لکیر کے نزدیک دونوں اطراف آباد قبائل آمدورفت آزاد ہوگی اور ان کے آمدورفت میں کوئی بھی مشکل اور بندش نہیں ہوگی پاکستان کے آزادی سے لے کر آج تک چمن پاک افغان بارڈر پر آباد قبائل کے آمدورفت میں کوئی بندش اور مشکل نہیں تھی۔ لیکن گورنمنٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے نے اہلیان چمن کو بہت مشکلات کے سامنا کر دیا ہے جو اہلیان چمن کے لیے ناقابل قبول ہے۔ سب سے پہلے پاکستانی حکومت چمن کے مسائل اور ذریعہ معاش سمجھ کرکے حل کرنا ہوگا۔
اہلیان چمن کے مطالبات ہیں کہ پاک افغان بارڈر چمن کے دونوں اطراف آباد قبائل کو
آمدورفت کیلئے پاسپورٹ کے بجائے شناختی کارڈ ، تذکیرہ یا راہداری نظام قائم کیا
جائے تاکہ مقامی لوگوں کی آمدورفت اور کاروبار متاثر نہ ہوسکیں۔ اسی طرح پاکستان
اور افغانستان کے درمیان جو کاروباری ایٹمز ایکسپورٹ اور امپورٹ کئے جاتے ہیں ان
میں سے صرف تین ایٹمز کو ٹیکس فری کرکے مقامی نوجوان طبقہ کیلئے کاروباری مواقع
فراہم کئے جائیں ۔ اور اہلیان چمن کے یہ دیرینہ مطالبہ بھی ہے کہ مقامی لوگوں کے
آمدورفت کیلئے علیحدہ راستہ بناکر مسئلہ حل کیجئے
|