صاف شفاف ہوا اور پانی

ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے بتایا گیا کہ ملک میں ہوا کے معیار میں عالمی سطح پر گزشتہ دہائی میں سب سے تیز رفتاری سے بہتری دیکھنے میں آئی ہے ، اور 90 فیصد سے زیادہ چینی عوام ملک کے ماحول سے مطمئن ہیں۔بڑے شہروں میں پی ایم 2.5 کے اوسط ارتکاز میں 57 فیصد کمی آئی ہے اور شدید آلودہ دنوں کی تعداد میں 93 فیصد کمی آئی ہے۔اس کامیابی کو چین میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کا مظہر اور موثر گورننس کا ایک جوہر قرار دیا جا سکتاہے، جس میں عوام سب سے مقدم ہیں۔
اعداد و شمار کے تناظر میں 2012 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 18 ویں قومی کانگریس کے بعد سے ، چین کی ماحولیاتی تہذیب نے تاریخی ، انقلابی اور ہمہ جہت تبدیلیوں کا تجربہ کیا ہے۔اس دوران ہوا کے معیار میں بہتری کے ساتھ ساتھ ملک میں 87.9 فیصد سطحیٰ پانی اچھے معیار کا ہے اور شہروں میں سیاہ اور بدبودار آبی ذخائر کو بنیادی طور پر ختم کردیا گیا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ دہائی میں چین نے 6 فیصد سالانہ جی ڈی پی نمو حاصل کی ہے جبکہ توانائی کی کھپت میں سالانہ صرف 3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دارالحکومت بیجنگ کی بات کی جائے تو یہاں ایک صاف ستھرے اور آلودگی سے پاک ماحول کی کوششوں میں بیجنگ نے نمایاں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔یہاں رہائش پزیر لوگ بشمول بیرونی ممالک کے افراد ، گواہی دیں گے کہ بیجنگ نے صرف چند برسوں میں فضائی آلودگی کے خاتمے میں قابل زکر پیش رفت دکھائی ہے۔تاریخی اعتبار سے بیجنگ ایک طویل عرصے سے شمال اور شمال مغرب سے آنے والے ریت کے طوفانوں اور علاقے کی صنعت کاری کی وجہ سے فضائی آلودگی کا شکار تھا۔ 40 سال پہلے دارالحکومت میں رہائش پزیر افراد کو ہر سال کئی خطرناک ریتلے طوفانوں سے نمٹنا پڑتا تھا۔ 2013 میں، جب بیجنگ نے فی گھنٹہ فضائی آلودگی کا انڈیکس جاری کرنا شروع کیا، تو پتہ چلا کہ سال کے صرف 176 دنوں کے لیے ہوا کا معیار اچھا یا معتدل تھا جبکہ بقیہ دنوں میں سے 58 کو خطرناک قرار دیا گیا۔ اس کے بعد ہی مرکزی اور مقامی حکومتوں نے ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ بیجنگ کے باشندوں کو تازہ ہوا میں سانس لینے اور نیلے آسمان کے دنوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے۔اُس وقت کئی لوگوں کو یہ یقین نہیں تھا کہ حکومتی منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوں گے ، اکثر حلقے شکوک و شبہات کا شکار تھے کیونکہ اُن کے نزدیک بہت سے ترقی یافتہ ممالک کو اگر اپنی ہوا کو صاف کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں تو چین ویسے بھی ایک ترقی پزیر ملک ہے اور اُس وقت وسائل کی فراوانی بھی ایک مسئلہ تھی۔ لیکن بیجنگ نے اپنے منصوبے میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سے زبردست پزیرائی حاصل کی اور دنیا نے اسے ایک معجزہ قرار دیا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران بیجنگ میں تحفظ ماحول کے اقدامات کو مزید مضبوط کیا گیا ہے اور نیلے آسمان کے حامل دنوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ انہی ماحول دوست پالیسیوں کے ثمرات ہیں۔
اس معجزے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں جن میں ایک کوئلے کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہے۔ 2013 سے پہلے، بنیادی طور پر کوئلہ بجلی پیدا کرنے اور ہیٹنگ نظام کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اب بیجنگ اور اس کے پڑوسی علاقوں میں کوئلے کی جگہ گیس اور بجلی نے لے لی ہے۔ نتیجے کے طور پر، بیجنگ کے دیہی علاقوں میں بھی لوگ کھانا پکانے کے لیے کوئلہ استعمال نہیں کرتے ہیں۔ بیجنگ کی یہ خوبی بھی رہی اس نے 2008 کے اولمپک کھیلوں سے قبل اپنی آئرن اور سٹیل کی صنعت اور آلودگی کا موجب بننے والی دیگر صنعتوں کو بتدریج شہر سے باہر منتقل کرتے ہوئے ملک میں ایک نیا رجحان متعارف کروایا۔اسی طرح 2011 میں،شہر میں گاڑیوں کی محدود نمبر پلیٹس جاری کرنے کی پالیسی متعارف کروائی گئی اور اب نئی اور شفاف توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی تحفظ ماحول کی کو ششوں کو عمدگی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ یوں چین نے دنیا کو یہ ماڈل بھی دیا ہے کہ اندھا دھند معاشی صنعتی ترقی کے بجائے فطرت اور انسانیت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کے تصور پر عمل پیرا رہتے ہوئے حقیقی ،دیرپا اور پائیدار ترقی کی جستجو کی جائے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 615698 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More