میرا اختلاف عمران خان صاحب سے
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
میرا اختلاف عمران خان صاحب سے شخصیات کے بارے میں تجزیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن ایسی شخصیت جو موجودہ نظام بدل کر نیا نظام لانا چاہتی ہو وہ ہے عمران خان صاحب ، جس پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ نظام ہیں کیا یعنی موجودہ اور نیا۔ موجودہ نظام جو ازل سے قائم ہے وہ پوری کائنات میں ایک ہی اصول پر مبنی ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا کر ہی زندہ رہ سکتی ہے کیونکہ بڑی مچھلی زیادہ طاقتور ہوتی ہےاور وہ چھوٹی مچھلی کو کھانے کی ہمت رکھتی ہے جب کہ چھوٹی مچھلی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی، بڑی مچھلی کو کھانا تو بعید از قیاس ہے۔اس رحجان کو انگریزی زبان میں “Survival of the fittest” کہتے ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے ماخوذ ہے۔ ازل سے قائم ہونے کا مطلب کائنات کے وجود میں آنے کے وقت سے، گویا کائنات کے قیام کے ساتھ ہی اس نظام کا وجود ہے تو یہ نظام ابد تک قائم رہنے والا ہے یعنی کائنات کے خاتمے پر ہی اس کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔چنانچہ موجودہ نظام کو ختم کرنے یا اس کو بدل ڈالنے کا ایک اکیلا انسان تو کیا ، پوری دنیا کے انسان بھی مل کر زَک نہیں پہنچا سکتے ۔یہی وہ وجہ ہے جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دنیا کے کسی کونے سے نظام کو بدلنے کی آواز نے جنم نہیں لیا، ہاں البتّٰی انسانی معاشروں میں آپس کے صلاح مشورے کے ذریعے موجودہ نظام کی خامیوں کی اصلاح کرنے کے بارے میں ضرور سوچا گیا جو انسانی تاریخ کی ابتدا سے آج تک جاری ہے اور وقت و حالات کے تحت اس میں ترامیم ہوتی رہی ہیں اور ابد تک ہوتی رہیں گی۔ لیکن موجودہ نظام کو مکمل طور سے ختم کرکے اس کی جگہ نیا نظام لانے کے بارے میں جب عمران خان صاحب سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا "معاشرے میں انصاف قائم ہوجائے تو ایک نیا نظام قائم ہو جائیگا اور اسی وجہ سے انھوں نے اپنی تحریک کا نام تحریکِ انصاف رکھا"۔ میرا یہ ماننا ہے کہ انصاف قائم ہونے سے مراد نظامِ انصاف کا بہتر ہونا ہے جو کہ معاشرے میں موجود مختلف الخیال زعماء سے باہمی گفت و شنید کے ذریعے ہی عمل میں لایا جاسکتا ہے اور اس عمل پر پوری مہذب دنیا میں تحقیق بھی ہوتی رہتی ہے اور عملدرآمد بھی ہوتا ہےمع اس میں بہتری لانے کے۔ نظام انصاف میں بہتری سے مراد کا ایک ہی سب سے پہلا اور آخری نکتہ ہے کہ بڑے مقام پر فائز اور کم تر حیثیت والے دونوں انسانوں کے لئے قانون برابر ہو اور اس پر عملدرآمد بھی یکساں طریقے سے ہوتا نظر ائے۔لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ خالقِ کائنات کے نظامِ تدبیر و تقدیر میں تبدیلی لائی جاسکے یعنی جو انسان اپنی زندگی بہتر بنانے کی تدبیر کرے گا اسی کی تقدیر بہتر ہوگی۔وماعلینا الّالبلٰغ
|