میںاں گزشتہ کئی دنوں سے روزنامہ خبریں میں ”سرائیکستان“ پر بحث پڑھ رہا ہوں۔ میں نے سرائیکی کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے خیالات سے بھی آگاہی حاصل کی میں صرف سرائیکی رہنماﺅں سے اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی کا کیا وجود ہے۔ سرائیکی لکھاری لکھتے ہیں کہ یہ بہت قدیم زبان ہے21 مارچ1948ءکو قائداعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ آپ سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان اور بنگالی بن کر بات نہ کریں، قائداعظم کا یہ بات کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم پنجابی،سندھی یا بلوچی یاپٹھان نہیں ہم تو بس صرف مسلمان ہیں“۔ اس خطاب میں انہوں نے کہیں بھی سرائیکی کا لفظ استعمال نہیں کیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ 1948ءتک بھی سرائیکی کا کوئی وجود نہ تھا اگر تھا تو قائداعظم اس کا نام لینا ضروری نہیں سمجھا اس سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سرائیکی کتنی اہمیت کی حامل ہے سرائیکی ایک الگ زبان نہیں ہے یہ تو بس پنجابی زبان کا بولا جانے والا ایک لہجہ ہے جیسے ماجھی، پوٹھوہاری وغیرہ ہیں مگر یہاں تک کہ خود سرائیکی دانشوروں نے پنجابی کے اس لہجے کو سرائیکی زبان کی حیثیت سے منوانے کی تحریک کا آغاز 60ءاور 70ءکی دہائی کو قرار دیا ہے۔ ظہوردھریجہ اور دیگر سرائیکی رہنماﺅں کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہے کہ سرائیکی تحریک تو دور کی بات 1960ءتک سرائیکی زبان تو موجود تھی مگر اس کی پہچان پنجابی، ملتانی یا بہاولپوری زبانوں کے لہجے سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سرائیکی تحریک اس دور میں منظم ہوئی جب پاکستان کے دشمن پاکستان کو تقسیم کرنے کیلئے بنگالیوں میں لسانی تعصب کو ہوا دے رہے تھے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد پاکستان کی یکجہتی کی بنیادوں کو کمزور کرنا تھا۔ لسانیت کے اس تعصب نے 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کردیا اور اب یہ آگ باقی ماندہ پاکستان کے درپے ہے اور یہ اس وقت ہورہا ہے جب پاکستان کا دفاع دوست ملک چین کے تعاون سے ناقابل تسخیر ہورہا ہے بلکہ مستقبل میں پاکستان دنیا کا معاشی حب بھی بننے جارہا ہے اور پوری دنیا کی نظریں اقتصادی راہداری پر ہیں جسے پاکستانی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو نام نہاد لسانیت پرستوں نے قوم کو تقسیم کرنے کی سازشیں تیز کردی ہیں۔نام نہاد سرائیکی لیڈر ظہور دھریجہ کے چہرے سے نذیر الحق دشتی نقشبندی نے اپنی کتاب سرائیکیون میں بھرپور انداز میں پردہ اٹھایا ہے وہ لکھتے ہیں ظہور دھریجہ نے جٹکی (سرائیکی) زبان میں ایک کتاب بنام ”اجرک“ تصنیف کی یہ تمام کی تمام کتاب اول سے آخر تک اکثر و بیشتر بدگوئیوں، بے ہودگیوں اور فضول باتوں سے بھری پڑی ہے۔ (کیا کہنے) ظہور صاحب اس کتاب کے صفحے 266 پر لکھتے : ”1947ءکے غدر میں یہاں سے جولوگ (سکھ اور ہندو بنیا) بھارت چلے گئے۔ وہ یہاں سے علم و عقل اور دانائی اپنے ساتھ لے گئے اور جو لوگ بھارت سے یہاں آئے۔ وہ علم و عقل و دانائی و حکمت اور شرافت و مروت وہاں چھوڑ آئے۔“ اب یہاں پر ہم اس بیان کے صرف پہلے حصے پر مختصر سی نظر ڈالتے ہیں اور اس کے دوسرے حصے پر کسی اور وقت مفصل نظر ڈالیں گے۔ جب اس جٹستان (جنوبی پنجاب) سے ظہور صاحب کے ہم قوم سرائیکی (سکھ اور ہندو بنیا) بھارت چلے گئے تو یہاں سے علم و عقل اوردانائی اپنے ساتھ لے گئے (واقعی) انہوں نے یہاں پر ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اس خطہ کے لوگوں کے پاس نہ علم رہا نہ عقل و دانائی رہی یہاں کے سب لوگ بے علم، جاہل اور پاگل رہ گئے اور یہ خطہ ”پاگلستان“ بن گیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ پھر ظہور صاحب کے پاس علم و عقل اور دانائی کہاں سے آئی؟ ان کے دماغ میں بھی تو بھس بھرا ہوگا؟ نہیں! مگر وہ یہ چیزیں شاید بھارت سے لے آئے ہوں گے۔ آپ کہیں گے کہ وہ کیسے؟ صبر کیجئے! بھارت سے لاگئے گئے علم و عقل اور دانائی کی باتیں ان کی ہم بتاتے ہیں۔ نام نہاد دانشور فیق ساحل کی تعریف کرتے ہوئے اس کے شاعرانہ کتابچے ”گھر گھر وچ جنگ ہوسے“ کے صفحہ 5 پر لکھتے ہیں کہ رفیق ساحل کی طرح سرائیکی سوچ نہ رکھنے والے کسی شخص کو میں اپنا نہیں سمجھتا اور میں اپنے عزیزوں کو بھی اپنا عزیز نہیں سمجھتا۔ جب تک وہ سرائیکی کا کلمہ نہ پڑھیں۔مطلب یہ کہ کوئی شخص چاہے ان کے عزیز و اقربا بھی کیوں نہ ہوں جب تک سرائیکی کا کالمہ نہیں پڑھیں گے، دھریجہ صاحب ان کے دشمن رہیں گے۔ پھر اسی کتابچے کے صفحہ 6 پر لکھتے ہیں کہ حرام زادہ وہ نہیں ہوتا جو لاوالد (بغیر باپ) کے ہو، بلکہ حرام زادہ وہ ہے جو اپنی ذات (قومیت) بدل دے۔ ظہور دھریجہ 12نومبر 2016ءکے ”خبریں“ ملتان کے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ شریعت کا مسئلہ ہے کہ حرامی وہ نہیں ہوتا جو لاوالد(بغیر باپ)کے پیدا ہوا ہو۔ بلکہ حرامی وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات قوم یا قبیلہ تبدیل کرتا ہے۔ اور آج ان نام نہاد سرائیکیوں کی بے شرمی دیکھیں یہ اپنے ہی لوگوں کیخلاف سازشیں کررہے ہیں سرائیکی رہنماﺅں کا تحریک سرائیکستان کا مقصد صرف پاکستانی قوم کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے اگر ان لوگوں کا مقصد یہ نہ ہوتا تو وہ صوبے کا نام سرائیکستان کی بجائے کچھ اور نام تجویز کرتے تاکہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ جو دوسری زبانیں بولتے ہیں اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرسکتے اگر ان سرائیکی رہنماﺅں نے اس کا نام کوئی اور تجویز کیا ہوتا تو شاید اب تک یہ لوگ کامیاب بھی ہوگئے ہوتے سرائیکی رہنماﺅں کی ان تمام تر سازشوں کے باوجود یہ ایک مذہب ہی ہے جس کی وجہ سے آج بھی پاکستانی عوام متحد ہے پاکستان میں تقریباً 44.15% لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے اور سرائیکی صرف پنجاب کے کچھ علاقوں میں 1053% لوگوں میں بولا جانے والا ایک لہجہ ہے جس میں سے کچھ لوگ لسانی بنیاد پر پنجاب کو تقسیم کرنے کے حق میں ہیں جن کا مقصد صرف الگ صوبے پر اپنی حکومت قائم کرنا ہے۔ سرائیکی رہنماﺅں کو چاہیے کہ وہ سازش کرنا بند کریں اور پاکستانی عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش نہ کریں، ہماری طاقت صرف متحد رہنے میں ہے۔ ”نہ کر بندیا میری میری نہ تیری نہ میری چاردناں دا میلہ دنیا فیرمٹی دی ڈھیری“اا
|