یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک بہت ہی خاص تعلقات اور منفرد اور آزمودہ دوستی ہے جو پہاڑوں سے بلند ، شہد سے میٹھی اور سمندروں سے بھی گہری ہے۔ایسے میں اس دو طرفہ دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ثقافتی تعاون اور عوامی سطح پر تبادلے بہت اہم ہیں۔اسی حوالے سے ابھی حال ہی میں کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا اور چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس کے اشتراک سے "فلم اور ٹی وی سے چین کو سمجھیں" کے عنوان سے ایک ورچوئل فورم کا انعقاد کیا گیا۔اس فورم کے لیے چین کے قومی محکمہ برائے ریڈیو ،فلم و ٹیلی ویژن نے رہنمائی فراہم کی تھی۔ فورم میں چین اور پاکستان سے ماہرین تعلیم ، میڈیا ارکان ، نوجوان طلباء و طالبات نے شرکت کی اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی روابط کے فروغ اور اہمیت سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔ورچوئل فورم کے دوران شرکاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان ایک بہت ہی خاص تعلقات اور منفرد اور آزمودہ دوستی ہے ۔اس دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ثقافتی تعاون اور عوامی سطح پر تبادلے بہت اہم ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹیلی ویژن اور فلم کے شعبے میں مشترکہ پروڈکشن کو مزید فروغ دیا جائے ۔شرکاء نے کہا کہ چین فلم و ٹیلی ویژن ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں نمایاں ہے اور پاکستان میں فلم کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہاں یہ تذکرہ لازم ہے کہ پاکستان میں 70 کی دہائی میں تقریباً پندرہ سو سینما گھر تھے لیکن آج یہ تعداد بڑھنے کی بجائے صرف 150 رہ گئی ہے جبکہ آبادی 24 کروڑ ہے۔ دوسری جانب چین میں 80 ہزار سے زائد سینما گھر ہیں۔ چین کا اس شعبے میں تجربہ اور تکنیکی مہارت پاکستان کو فائدہ دے سکتی ہے اور سینما اسکرینز کی بحالی سے چینی فلموں کی نمائش میں بھی مدد ملے گی۔ویسے بھی چین اس وقت فلم سازی کے حوالے سے ایک بڑا ملک ہے اور پاکستان اس شعبے میں چین کے تجربات سے سیکھ سکتا ہے ، اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین تعاون سے روایتی دوستی اور ہم آہنگی کو مزید فروغ ملے گا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس حوالے سے کام بھی ہو رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل چینی اور پاکستانی فلم سازوں کے اشتراک سے بننے والی ایک فلم"پاتھیے گرل" دیکھنے کا اتفاق ہوا جو خواتین کو بااختیار بنانے، دوستی، رواداری اور افہام و تفہیم کے موضوعات کو اجاگر کرتی ہے۔اسی طرح پاکستان کے نگران وزیر برائے قومی ورثہ اور ثقافت سید جمال شاہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ ان کی اگلی فلم "کٹ" بھی پاکستان اور چین کے اشتراک سے بننے جا رہی ہے۔جو انتہائی خوش آئند امر ہے۔ فورم کےشرکاء نے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے ثقافتی اداروں کے درمیان تعاون کو مزید بڑھایا جائے ،دونوں ممالک میں فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء بالخصوص فلم اور ٹی وی پروڈکشن سے وابستہ نوجوانوں کا تبادلہ پروگرام شروع کیا جائے اور جامعات کے درمیان روابط کو بڑھایا جائے تاکہ چین پاکستان آہنی دوستی کو عوامی شمولیت سے مزید مضبوط کیا جا سکے۔ اس موقع پر چین پاک دوستی کو اجاگر کرتی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی.شرکاء نے دستاویزی فلم کو بھرپور سراہتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک میں عوام سے عوام کے درمیان بہترین ہم آہنگی کا عمدہ اظہار ہے۔دستاویزی فلم میں دونوں ممالک کے دلکش ثقافتی رنگوں کو اجاگر کیا گیا ہے، نوجوانوں کے درمیان روابط کی اہمیت بتائی گئی ہے اور چین میں پاکستانی نوجوانوں کے لیے روشن امکانات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ساتھ ساتھ مختلف تعمیراتی منصوبوں کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کیسے پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اس دستاویزی فلم کی مدد سے چینی عوام کو گوادر بندرگاہ کی اہمیت ،گوادر کے سی فوڈ کے حوالے سے بھی آگاہی ملی۔سب سے بڑھ کر چین اور پاکستان کے شہروں کے درمیان لوگوں کے جذبات کو عمدگی سے بیان کیا گیا۔پاکستانی لوگ چین کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور چینی لوگوں کے پاکستان کے بارے میں کیا جذبات ہیں۔ یہ سب ان دستاویزی فلم کا بہترین حصہ رہے۔چینی کمپنیاں معاشی منصوبوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں فلاحی کاموں میں کیسے پیش پیش ہیں ،یہ پہلو بھی انتہائی متاثرکن رہا۔علاوہ ازیں ،پاکستان کی کاروباری افراد کے لیے چین کی وسیع منڈی کیا بہترین مواقع فراہم کر رہی ہے۔اس حوالے سے بھی تمام موضوعات کو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان ثقافتی روابط فروغ پا رہے ہیں۔پاکستان کی جانب سے بہت جلد ایک سی پیک کلچرل کارواں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کا مقصد پاکستان، چین اور وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے درمیان اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ کارواں چین کے شہر شی آن سے شروع ہوگا اور کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، عمان، گوادر، کراچی سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے گا۔ لہذا ایسی سرگرمیاں یقیناً دونوں ممالک کے عوام کو ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب لانے میں انتہائی مددگار ثابت ہوں گی۔
|