ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے 10ویں بیجنگ شیانگ شان فورم کا انعقاد کیا گیا ، جس میں 99 سرکاری وفود، 19 ممالک کے وزرائے دفاع، فوجی سربراہان، بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے، ماہرین، اسکالرز اور مختلف ممالک کے مبصرین سمیت 1800 سے زائد افراد نے شرکت کی ۔یہ فورم دیگر چیزوں کے علاوہ، ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تنازعات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کریں تاکہ دنیا بھر میں عدم تحفظ کے مختلف چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے امن لایا جا سکے۔ دیکھا جائے عہد حاضر میں دنیا جغرافیائی سیاسی تناؤ، علاقائی عدم استحکام اور بہت سے دیگر بین الاقوامی خطرات سے بھری ہوئی ہے، اور ان تمام سلامتی کے خطرات نے عالمی مستقبل پر سایہ ڈال دیا ہے. اس پس منظر میں، بڑھتے ہوئے سلامتی بحرانوں کے بارے میں ممالک کے یکطرفہ اور مختلف نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ان بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ایک مضبوط بین الاقوامی سلامتی ڈھانچے کی کمی نے سیکورٹی کے پیچیدہ خطرات کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان تنازعات کا ترقی کے مشترکہ مقصد کی جانب انسانی پیش رفت پر بھی منفی اثر پڑا ہے ، کیونکہ امن تمام انسانی تبدیلیوں کے لئے ایک شرط ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تنازعات سپلائی چین میں خلل ڈال رہے ہیں، غذائی عدم تحفظ کو ہوا دے رہے ہیں اور مختلف ممالک میں قحط اور جبری نقل مکانی کے خطرے میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حکام سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو (ایف آئی آئی) کے دوران خبردار کر چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا بحران پہلے ہی خطے کی معیشتوں کو متاثر کر رہا ہے، جنگ عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح عالمی بینک نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر بحران بڑھتا ہے تو تیل کی قیمتیں 157 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلامتی سب کے لئے ایک مشترکہ ایجنڈا ہے ، کیونکہ یہ قومی سرحدوں سے بالا ہے اور مختلف ممالک کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا اسی تناظر میں شیانگ شان فورم میں مختلف ممالک کے مندوبین نے عالمی سلامتی کے چیلنجز پر حقیقی تعاون کے ساتھ ساتھ اختلافات کو کم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔چینی حکام نے سیکیورٹی تعاون کے بنیادی اصول پر عمل کرتے ہوئے فورم کے دوران سلامتی کے امور پر باہمی اعتماد کو مسلسل گہرا کرنے، سیکیورٹی ڈھانچے کو بہتر بنانے، سیکیورٹی گورننس کو بڑھانے اور سیکیورٹی تعاون کو فروغ دینے کے لئے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اعادہ کیا۔ وسیع تناظر میں اس پلیٹ فارم نے ترقی پذیر ممالک کو مرکزی دھارے کی سلامتی کی بحث میں لانے میں مدد کی ہے. اس کے علاوہ، نمائندوں نے غیر معمولی کثیر الجہتی چیلنجوں کے لئے باہمی طور پر متفقہ سیکیورٹی فریم ورک کی تشکیل کی حمایت کی ہے جو جیت جیت کے عمل سے مطابقت رکھتا ہے اور ایک تنگ اور یکطرفہ نقطہ نظر کے بجائے کثیر الجہتی کے تصور کو برقرار رکھتا ہے. فورم کے دوران عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی ایک وسیع اتفاق رائے پایا گیا ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ، جہاں غربت ہمیشہ سلامتی کے خطرات کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔ اس کا ایک حصہ ترقیاتی تعاون کے ذریعے حل سامنے لانا ہے۔مختصر یہ کہ اس سال کے شیانگ شان فورم نے ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون کو بہتر طور پر مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سلامتی کے ڈھانچے پر گلوبل ساؤتھ کے خدشات کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے تاکہ عالمی امن کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ یہ فورم جاری تنازعات پر بات چیت کی حوصلہ افزائی سے مختلف فریقوں کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے پل تعمیر کرنے کی کوشش پر عمل پیرا ہے تاکہ عالمی امن کی جستجو کو ایک نئی تحریک مل سے۔
|