محمد ﷺ سے وفا: شرح شکوہ اور جواب شکوہ
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
محمد ﷺ سے وفا: شرح شکوہ اور جواب شکوہ شارح: ڈکٹر عابد شیروانی پیش لفظ: ڈاکٹر عابد شیروانی کی پیش نظر تصنیف کا عنوان ”مُحَمد ﷺ سے وفا“ ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کی نظم ”جواب شکوہ“ میں یہ شعر بند نمبر36 کا آخری شعر ہے۔ ”محمد ﷺ سے وفا“ کے الفاظ اقبال کے اس شعر میں کچھ اس طرح سے ہیں۔ کی محمد ﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں ڈاکٹر عابد شیروانی نے علامہ اقبالؔ کے اس شعر کی تشریح کچھ اس طرح بیان کی ہے ”اے مسلمانوں ہمیں صرف اس بات کی ضمانت دے دو کہ تم میرے محبوب سے ا یفائے عہد کروگے، میرے حبیب ﷺ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرو۔ ان کے احکامات کی بجا آوری لاؤ، ان کی خواہشات کی تعمیل کرو، ان کے مقصد کی تکمیل کرنے میں ایثار کا مظاہرہ کرو۔ اگر تم یہ کر گزرو تو تم میری تختی اور خامہ لے لو۔ خدا کے احکام کی سختی اور اس کے لکھنے کاقلم قدرت اب تمہارا ہے۔ اس لوح پر تم جو چاہو لکھ لو“۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؔ بیسویں صدی کے ایک عظیم اور مقبول ترین شاعر ہیں جو شاعری میں نہ صرف بلند مقام رکھتے ہیں بلکہ وہ ایک فلسفی، مصلح، سیاستدان، مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھنے والے، دو قومی نظریے کے خالق اور مسلمانوں کے محبوب رہنما ہیں۔ اقبالؔ ان چند ہستیوں میں سے ہیں جن کی زندگی میں ان کی شخصیت،شاعری، فکر وفلسفہ، ادب اور تصانیف پر مختلف پیرائے میں لکھا گیا۔ اقبال کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد یہ عمل جاری رہا اور تاحال جاری ہے۔بعض لکھنے والوں نے صرف اقبال کو اپنا موضوع بنالیا اور اقبال پر لکھتے رہے اور اب بھی لکھ رہے ہیں۔اقبال سے عقیدت، محبت اور اقبال کی شخصیت او ر ان کے خیالات و افکار اور شاعری کی تشریح و تفسیر کو اپنا میدان عمل بنانے والے اقبال شناس تصور کیے جاتے ہیں۔ اقبال شناس افضل رضوی کے بقول’علامہ اقبال کی شخصیت نے کئی حوالوں سے اپنے آپ کو منوایا اور ان کے فن کو مانا گیا۔ اس کی کئی جہتیں، کئی تہیں، کئی رنگ، کئی سا ز اور کئی آوازیں ہیں۔ یہ قدرت کی کرشمہ سازی ہے، نعمت خدا وندی، جو اقبالؔ کو اقبال کر گئی ورنہ بقول اقبالؔ ؎ اقبالؔ بھی ا قبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے اقبال شناس ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کے مطابق’اقبال کی زندگی میں ان پر جو کچھ لکھا گیا اس کی نوعیت زیادہ تر ستائشی اور جذباتی تھی۔ البتہ ان کی وفات کے بعد ارباب فکر و نظر تنقیدی انداز میں اقبال کو اپنی تحریروں اور تصانیف کا موضوع بنانے لگے۔ ان میں سے کچھ نے اقبال کے سوانحی حالات کو موضوع بنایا اور کچھ نے اقبال کے فکر و فلسفہ پر توجہ دی‘۔ اقبال ؔ کی زندگی میں اقبالؔ پر لکھنے والوں میں ایک نام ’مولوی احمد دین‘کا ہے جنہوں نے اقبال کی زندگی ہی میں سب سے پہلے کتاب تحریر کی۔ مولوی احمد دین اقبالؔ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ کشمیری تھے، ادبی ذوق رکھتے تھے اور وکلالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ معروف محقق مشفق خواجہ نے اس نادر کتاب کا طویل مقدمہ بعنوان ”اقبال اور مولوی احمد دین“ لکھا۔ اردو کے معروف استاد، محقق اور اقبال شناس ڈاکٹر سلیم اختر نے اقبال کو”ممدوح عالم“ قرار دیا۔’اقبالیات‘ نے دیگر علوم کی مانند ایک علم کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ مختلف جامعات میں اقبالیات کے نام سے شعبہ جات قائم ہیں جہاں اقبالیات میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح پر تعلیم وتحقیق کی سہولیات موجود ہیں۔ اقبال شناسی سے وابستہ ماہر کو اقبال شناس،محققِ اقبال اور ماہرِ اقبال تصور کیا جاتا ہے۔ پیش نظر تصنیف کے خالق ڈاکٹر شیروانی ان اقبال شناسوں میں سے ہیں جنہوں اقبال کی شاعری میں معروف ترین نظموں ”شکوہ“ اور”جواب شکوہ“کے تقابلی مطالعہ کو اپنا موضوع بنایا اور دونوں نظموں کی تشریح ایک ساتھ پیش کی۔یہ دونوں نظمیں اقبالؔ کو ممتاز اور یگانہ بناتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دیگر نظمیں بھی اقبال کی سوچ و فکر کے اظہار کو عام کرتی ہیں۔ اقبال ایک جانب فکر و فلسفہ کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں تو دوسری جانب وہ اصلاح معاشرہ، مصلح قوم اور بچوں کے لیے خوبصورت نظموں کے خالق کے طور پر بھی مقبول ہیں۔ شاعر مشرق کی شاعری کے حوالہ سے ڈاکٹر عابد شیروانی کی یہ دوسری تصنیف ہے اس سے قبل ان کی تصنیف ”اسپین: اقبال کا دوسرا خواب“ مَنصَہ شُہوُد پر آچکی ہے۔ یہ شرح ہے اقبال کی معروفِ زمانہ نظم ’مسجد قرطبہ“ کی۔ اسے مصنف نے اقبال کے دوسرے خواب سے تعبیر کیا ہے۔ اپنی ان تصانیف کی روشنی میں ڈاکٹر شیروانی بجا طور پر اقبال شناسوں کی صف میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔ ان دو تصانیف کے علاوہ ڈاکٹر شیروانی نے’علامہ اقبال اسٹوڈیو‘ تشکیل دیا ہوا ہے جس میں وہ اقبالؔ کے کلام اور اس کی تشریح کی ویڈیوز بناتے ہیں اور اپنے یوٹیوب چینل پر پوسٹ کر تے ہیں۔ یہ عمل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہناہے کہ اب تک اقبال ؔ کے اردو کلام کی ایک سو(100)سے زیادہ ویڈیو اور فارسی کلام کی ساٹھ (60) کے قریب ویڈیوز اپنے یو ٹیوب چینل پر اَپ لوٹ کر چکے ہیں۔ قابل ذکر نظموں میں خضرِ راہ، وطنیت، زمانہ، ذوق و شوق،شکوہ اور جواب شکوہ، مسجد قرطبہ جیسی نظمیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر شیروانی نے خانہِ فرہنگ ایران سے باقاعدہ فارسی سیکھی،فارسی کلام کی تشریح کے ساتھ ویڈیوزتیار کیں جو ان کے یوٹیوب چینل پر موجود ہیں۔البتہ تصانیف کی دنیا میں انہوں نے رواں سال ہی قدم رکھا اور مختصر وقت میں یکے بعد دیگرے دو تصانیف منظر عام پر لانے میں کامیاب ہو ئے۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل قریب میں اقبال ؔ کے حوالے سے اور بھی تصانیف منظر عام پر لانے کی نوید سنائی ہے۔جو ایک قابل تعریف عمل ہے۔ علامہ اقبالؔ کی نظم ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ کی تشریحات متعدد اقبال شناسوں نے کی۔زیادہ تر ان نظموں کی تشریحات الگ الگ بیان کی گئیں ہیں۔ ڈاکٹر شیروانی کی شرح دیگر تشریحات سے مختلف ہے ڈاکٹر شیروانی نے دونوں نظموں کو یکجا کردیا ہے۔ یعنی نظم شکوہ کے ہر بند کا جواب’جواب شکوہ‘ سے اس بند کے ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے تاکہ نظم شکوہ کے بند میں جو بات شاعر نے بیان کی ہے اس کا جواب اسی بند کے ساتھ ’جواب شکوہ‘ سے مل جائے۔ دونوں نظموں کے موضوعات ایک دوسری نظم سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی ایک بند میں شکوہ ہے جو پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے جب کہ دوسری نظم جواب شکوہ میں اس بند کا جواب کسی اور بند میں موجود ہے۔ پیش نظر تصنیف میں نظموں کی شرح کی ترتیب کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے تین وجوہات بیان کی ہیں۔ ان میں ایک وجہ یہ کہ اس ترتیب میں بند میں بیان کردہ اشعار، الفاظ معنی، ترجمہ اور تشریح ایک جگہ بیان ہوگئے ہیں اور قاری کے سامنے دونوں نظموں کے مضامین بیک وقت سامنے آجاتے ہیں۔ یعنی سوال بھی اور جواب بھی۔ دوسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ ان دو نظموں کے ذریعے اقبال کا پیغام جو وہ قوم کو دینا چاہتے ہیں وہ پوری تفصیل و صراحت کے ساتھ قارئین کے سامنے آجاتا ہے۔’شکوہ‘ اور جواب شکوہ‘ کو سوالاً جواباً یکجا کرنے کی تیسری وجہ یہ بیان کی کہ مصنف نے شکوہ اور جواب شکوہ کی تشریح سہل اور آسان زبان میں کی ہے۔ یعنی مشکل الفاظ جو اقبال نے اپنی نظموں میں استعمال کیے ان کے معنی اور تشریح آسان زبان میں بیان کرنے سے قارئین کو آسانی ہوگی۔ ذیل میں ایک مثال درج ہے : نظم شکوہ کے بند11، 12 اور13 یہ ہیں ؎ آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز قبلہ رُوہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے اس بند کے ہر ایک شعر کے الگ الگ معنی،ترجمہ اور تشرح بیان کی گئی ہے۔نظم شکوہ کے بند نمبر 11،12، اور13 کے بعد نظم جواب شکوہ کے بند نمبر 11 میں نظم شکوہ کے تینوں بندوں کا جواب نقل کیا گیا ہے۔ اس بند کے اشعار حسب ذیل ہیں۔ پھر بھی ہم سے گلہ ہے کہ وفا دار نہیں ہم وفا دار نہیں ، تُو بھی تو دلدار نہیں صفحہئ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے؟ میرے کعبے کو جبینو ں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فر دا ہو شاعر مشرق کی نظمیں ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ بہت معروف ہیں۔ ان نظموں کے اشعار کی تشریح متعدداقبال شناسوں نے کی لیکن ڈاکٹر عابد شیروانی نے ان نظموں کے معنی، ترجمہ اور تشریح کو یکجا کر کے اقبال پر اپنی تحقیق کو منفرد اور ممتاز بنادیا ہے۔شاعر مشرق کے حوالے سے ڈاکٹر عابد شیروانی کی یہ کاوش قابل ستائش ہے جس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔ یہ کاوش انہیں اقبال شناسوں کی فہرست میں شامل بھی کرتی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔(12 جون 2023ء)
|