انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو میرے سامنے پچھلے انتخابات کا منظر گھومنے لگا پارٹیاں انتخابات کے شفاف ہونے کے بات تو بہت کرتی ہیں مگر ان میں سے کوئی سیاسی جماعت برصر اقتدار آجائے تو دوسری سیاسی جماعتیں انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتی ہیں اور جو جماعت برصر اقتدار آتی ہے وہ جماعت الیکشن کو شفاف قرار دینے کی پوری کوشش کرتی ہے ۔ اگر بات ماضی کی جائے تو پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے میں بھی اسی شفافیت کا عمل دخل تھا اور نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا وہ تو خدا کا شکر ہے کہ اس کے بعد الزامات ہی لگے نتیجا کسی اور صورت میں سامنے نہیں آیا ، مگر پھر بھی اس ملک کو کہیں نہ کہیں نقصان ہوتا رہا اور ایسا عرصہ دراز سے ہوتا چلا آرہا ہے کہ جیتنے والی پارٹی انتخابات کو شفاف اور ہارنے والی پارٹی انتخابات پر سوالی نشان کھڑے کر دیتی ہے اور پھر الزامات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اگلے الیکشن تک جاری رہتا ہے اور ہارنے والی جماعت یہی کہتی دیکھائی دیتی ہے کہ ہمیں موقع ملتا تو ہم آسمان سے تارے توڑ کر عوام کے قدموں میں رکھا دیتے مگر جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام کے قدموں تلے زمین کھینچ لیتے ہیں۔ خیر عوام تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتی۔ ہم بات کر رہے ہیں الیکشن کے شفاف ہونے کی جو پاکستان میں 71 کے بعد کبھی شفاف نہیں ہوئے آخر یہ الیکشن کبھی شفاف ہوتے کیوں نہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر، ہر پارٹی الیکشن کو شفاف بنانے کی بات تو کرتی ہے مگر الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے یہ سیاسی جماعتیں متفق بھی نہیں ہوتی، مل بیٹھ کر کوئی حل بھی نہیں نکالا جاتا۔ عدالت کے بہت زوردینے کے بعد الیکشن کی تاریخ تو آگئی ہے مگر اس الیکشن کے سامنے آنے والے نتائج تسلیم کرنے کے لیے ہارنے والے جماعت تیار نہ ہوگی اور جیتنے والی سب سے زیادہ شفاف انتخاب ہونے کا دعوا کرے گی پاکستان میں ایسا کیوں دیکھنے میں نہیں آتا کہ ہارنے والی جماعت جیتنے والی جماعت کا خیر مقدم کرے لیکن یہ ہمارے ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔ ہم بات بھی تو پاکستان کی ہی کرہے ہیں اس میں کوئی بھی چیز ممکن ہے اور کوئی بھی چیز ناممکن مگر سیاسی جماعتوں کا اپنی ہار تسلیم کرنا ممکن نہیں ۔
|