ایک گرم ملک کا باشندہ جب کسی سرد ملک میں جائے گا تو اسے زیادہ سردی لگے گی اسی طرح سرد ملک کا باشندہ اگر کسی گرم ملک میں جائے گا تو وہاں گرمی اسے لازما متاثرہ کرے گی اسی طرح ایک آدمی عطر فروش کی دکان میں ملازم ہو تو وہاں مختلف قسم کی خوشبوؤں میں دن گزارے گا تو وہ اپنے لباس کو نہ بھی خوشبو لگائے تو بھی اس کے کپڑوں سے خوشبو آئے گی اسی طرح اگر کسی کا اٹھنا بیٹھنا اس لوہار کے پاس ہےجو آ گ کی بھٹی جلاتا ہو تو اس کے کپڑوں پر ضرور چنگاریاں پڑیں گی –
جو شخص اپنی صحبت کے معاملے میں سنجیدہ اور فکر مند ہوگا وہ برائیوں سے بچ سکتا ہے اور جس نے اس معاملے میں غفلت برتی وہ خسارے سے نہیں بچ سکتا ۔ آموں کی پیٹی میں اگر سب آم اچھے ہوں مگر ایک آم خراب ہو تو اس کے اندر کے اکثر آم خراب ہو جائیں گے اسی وجہ سے پھل فروش اکثر گلے سڑے پھل کو فوری طور پر دوسرے پھلوں سے الگ کر دیتا ہے تاکہ وہ دوسرے پھلوں کو خراب نہ کر سکیں اسی طرح ہم انسانوں میں ہے نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے اور برے لوگوں کی صحبت برا بنا دیتی ہے بس فرق اتنا ہے کہ بری صحبت جلد متاثر کرتی ہے اور اچھی صحبت کچھ وقت لیتی ہے اب تک جو لکھا ہے وہ ایک شخص کے ماحول کے بارے میں تھا جس طرح ایک شخص پر اچھی اور بری صحبت کا اثر ہوتا ہے اسی طرح قوم پر بھی اچھی اور بری صحبت کا اثر ہوتا ہے یہاں بات ہو رہی ہے ایک ایسی قوم کی جس کا مذہب ، رسم و رواج ،روایات، لباس اورزبان سب مختلف تھا مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے چند چیزوں کیے علاؤہ جن کی وجہ سے ایک الگ ملک بنایا گیا تھا مگر ملک آزاد ہونے کے بعد ان چند چیزوں کو چھوڑ کر وہ سب کچھ اپنایا جا رہا ہے جو اس قوم کا حصہ نہ تھا ۔. جی ہاں میں یہاں بات کر رہی ہوں اپنی ہی قوم کی جو اپنی تمام روایت ،رسم ورواج ،زبان حد تک کہ اپنے تہوار کو چھوڑ کر دوسروں کی طرز زندگی اپنا رہی ہے ۔ مغربی لباس اور زبان تو ہمارے قوم میں بہت زیادہ عام ہو چکی ہے مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے تہوار بھی بہت زیادہ عام ہورہے ہیں جیسے کہ ہالو وین ،کرسمس ،ہولی یہ تہوار پاکستان قوم میں بہت زیادہ عام ہو چکے ہیں آج کل پاکستان کی بڑی بڑی کمپنیاں اپنے ورکر کو ہایلو ان پارٹی دے رہی ہیں . غیرمسلم یہ تہوار 31 اکتوبر کو مناتے ہیں . پاکستان میں یہ تہوار نہ صرف کمپنیاں بلکہ کالج اور یونیورسٹیوں کے بچے بھی بڑے شوق سے مناتے ہیں یہ جانیں بغیر کہ ہمارے اسلام میں یہ جائز ہے بھی کہ نہیں لیکن مذہب کے بارے میں تو کون جاننا چاہتا ہے کوئی نہیں آج کل والدین کی صرف ایک ہی سوچ ہے بس ہمارے بچے دنیا کے ساتھ آگے بڑھیں پیچھے نہ رہیں یہ سوچے بنا کہ دنیا کے لیے تو آگےبڑھ جائیں گے مگر آخرت میں سب سے پیچھے رہ جائیں گے یہ لکھتے ہوئے مجھے اتنا افسوس ہو رہا ہے -کہ فلسطین میں اس وقت کیا صورتحال ہے اللہ نہ کرے وہ صورتحال پاکستان کی بھی ہو مگر ہم اپنی دنیا میں گم ہیں جس ملک اور قوم کی وجہ سے ہمارے فلسطینی مسلمان تکلیف میں ہیں انہی لوگوں کے تہوار بنا رہے ہیں انہی کی طرز زندگی کو اپنا رہے ہیں لباس سے لے کر کھانے ،سونے تک کے آداب بھی انہی کے اپنائے ہوئے ہیں ۔ ماحول صرف ایک شخص کو متاثر نہیں کرتا بلکہ پوری قوم کو متاثر کرتا ہے بری صحبت ایک شخص کو نہیں بلکہ پوری قوم کو کھا جاتی ہے وہ قومیں اپنی اصل پہچان کھو دیتی ہیں جو دوسروں کی طرز زندگی اپناتی ہیں اور ایک جھوٹی پہچان کے ساتھ بس زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں ۔ قوم کیلئے بس ایک ہی پیغام ہے اپنے اصل کو پہنچانے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنا وجود بھی کھودے گئے ۔