بدلتے موسم اور بزرگ۔

بدلتے ہوئے موسم میں جہاں ہم بچوں کو ٹھنڈ سے بچاتے اور ان کا خیال رکھتے ہیں ،اسی طرح گھر میں موجود بڑے بزرگوں کا بھی رکھنا چاہئیے۔اسکول کے لئے نکلتے وقت بچوں کو سویٹر ٹوپی وغیرہ پہناتے ہیں لیکن معمر افراد کو مسجد جاتے وقت شال یا موزے دینا بھول جاتے ہیں۔ خصوصاً جن کی عمر 70 سال یا اس کے لگ بھگ ہے ،ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ،موسم کے مطابق لباس فراہم کرنا ، وضو اور غسل کے لئے نیم گرم پانی دینا ،بستر کا آرام دہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر انھیں کھانے میں کسی چیز سے پرہیز ہے تو ان کے لئے پرہیزی کھانا بنانا ، وقت پر دوا دینا ،کبھی ان کے پاؤں دبانا ،سر کا مساج کرنا ،ان کی آپ بیتیاں سن لینا ،ہمیں ان کی قیمتی ترین دعائیں دلاسکتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا پرائم ٹائم ہمیں دیا ہے اور عمر کے اس حصے میں جب وہ اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے تو ہمیں ان کا خیال رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا چاہئیے کہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔بڑھتی عمر کے زیرِ اثر کبھی وہ ایک ہی بات کو بار بار کرنے لگ جاتے ہیں تو صبر سے سن لینا چاہئیے۔۔اگر وہ فیملی میں کسی سے ناراض یا غصہ ہوں تو حکمت سے کوئی مثبت بات کرکے ان کا دل صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ ٹوٹے رشتوں کو جوڑنا بہترین عبادت ہے۔ کبھی وقت نکال کے ان کی مشکلات کو محسوس کرنا چاہئیے کہ وہ کس وجہ سے پریشان ہیں۔جن بزرگوں کے پاس پوتوں پوتیوں ، نواسوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے وہ نسبتاً زیادہ مطمئن رہتے ہیں بہ نسبت ان کے جو گوشہء تنہائی میں رہ رہے ہوں۔بڑھاپا اپنے ساتھ کمزوری ،بے بسی، لاچاری لاتا ہے اور بوڑھے افراد بعض اوقات "عدم تحفظ" کے احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ایسا نہ ہوجاۓ ویسا نہ ہوجاۓ ،ایسے میں اولاد کو ان کے پاس رہ کر انھیں اطمینان دلانا چاہئیے۔والدین بہت خوددار ہوتے ہیں ،جوان اولاد کے سامنے اپنی ضروریات کا تذکرہ نہیں کرتے مگر اولاد کو خود یہ محسوس کرنی چاہئیں۔ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز اچھے بھلے انسان کو پریشان کردیتی ہیں تو بڑے بزرگوں کو ایسی خوف ناک خبروں سے دور ہی رکھا جاۓ تو بہتر ہوتا ہے۔ کبھی انھیں یہ احساس نہ دلائیں کہ آپ کی معلومات ان سے زیادہ ہیں۔ ایک بار ایک ضعیف ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ آج کھانا مزے کا بنا ہے ،کہاں سے سیکھا ہے ؟ بیٹی نے کہا کہ امی ،آپ سے ہی سیکھا ہے اور دونوں مسکرادیں!