پاکستان میں اسمگلنگ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا ملکی معیشت پر اثر پڑتا ہے ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر مختلف اشیاء کی غیر قانونی تجارت ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اسمگلنگ شدہ مصنوعات نے پاکستانی معیشت کے متعدد شوبوں میں در اندازی کی ہے، جس میں ٹیلی فون، ایندھن اور روزمرہ کی ضروریات جیسے باتھ روم کی فٹنگز اور چائے وغیرہ شامل ہیں۔ یہ غیر قانونی سرگرمیاں رسمی معیشت اور تجارت کو ریگولیٹ کرنے کی حکومتی کوشش کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے۔ پاکستان میں اسمگلنگ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ عرصہ دراز سے چلا ا رہا ہے اس کے خلاف کی جانے والی کوششیں اتنی تیز نہیں جتنی ہونی چاہیے۔ ایران افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ سامان کی غیر قانونی تجارت جاری رہنے کے ساتھ سرحدی سمگلنگ پاکستان میں یہ بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ کچھ عرصے قبل ہارڈورڈ یونیورسٹی کے اقتصادی ماہرین کی ٹیم اور پاکستان کی وزارت تجارت کہ اعلیٰ حکام کی مشترکہ طور پر مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں ایک درجن اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حجم 3.3 ارب ڈالر سالانہ ہو چکا ہے زیادہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس میں سے 95 فیصد سامان ضبت کرنے میں ناکام رہاہے ۔ یہ اندازہ صرف درجن بھر اشیاء ضروریہ کا ہے، دیگر اشیا ضروریہ کی اسمگلنگ کا حساب کتاب کیا جائے تو بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والی 74 فیصد موبائل فونز غیر قانونی تجارت کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں پاکستان کے بازاروں میں فروخت ہونے والی 23 فیصد چائے اور 20 فیصد سگریٹ بھی اسمگلنگ کا مال ہے 3 لاکھ ٹن کپڑا بھی اسمگلنگ کا مال ہوتا ہے، اس کے علاوہ 44 ارب روپے کی ادویات بھی غیر قانون تجارت کے ذریعے پاکستان کے بازاروں تک پہنچتی ہے۔ اس سے اندازہ لاگایا جاسکتا ہے کہ کتنی بڑی مقدار میں سامان ڈیوٹیز ادا کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوتا ہے، نتیجہ پاکستان کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یکم ستمبر کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا جس میں انہوں نے کسٹمز حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملک سے چینی، پیٹرولیم مصنوعات، یوریا، زرعی اجناس اور دیگر اشیا کی اسمگلنگ کے حوالے سے سختی سے سدباب کی ہدایت کی گئی تھی۔ نگران وزیراعظم نے ملک کی معیشت کی خرابی کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسمگلنگ روکنے کے لیے ملوث حکام کے خلاف حکم دیا ہے۔ اجلاس کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس ٹویٹر پر جاری کردہ بیان میں انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ بھی ہے، ٹیکس چوری اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سمیت بہت سے مسائل اسمگلنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج اسمگلنگ روکنے اور اس میں ملوث حکام کے خلاف سخت ترین کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن یہ کاروائی بہت پہلے ہی کر دینی چاہیے تھی کیونکہ پاکستانی معیشت کو جتنا کروڑ روپے کھربوں روپے کا نقصان اب تک ہو چکا ہے، اگر یہ کاروائیاں پہلے کی جاتی تو پاکستان پہنچے والے نقصان میں کمی آجاتی ۔ اپریل کے مہینے میں سریا تیار کرنے والے اداروں کی ایسوسیشن (پی اے ایل ایس پی) کے سیکریٹری جنرل واجد بخاری نے اُس وقت کےوزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر مطلع کیا تھا کہ بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سریہ ایران سے بذریعہ اسمگلنگ مس ڈیکلریشن اورانڈرانوائسنگ ارہا ہے ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کی کمزور نگرانی کی وجہ سے اسمگلنگ شدہ سریا اب لاہور کراچی اور دیگر شہروں تک پہنچ چکا ہے۔ واجد بخاری نے بتایا کہ ایران اور افغانستان سے تقریبا پانچ لاکھ ٹن سریہ اسمگل ہو کر پاکستان کے مختلف حصوں میں اتا ہے، جو کہ مقامی مینوفیکچرز کے لیے شدید جھٹکا ہے، غیر قانونی طریقے سے آنے والا سریا پاکستان کی کل پیداوار کا 10 فیصد ہے، تاہم اس کی وجہ سے قومی خزانے کو 25 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ بیرون ملک اسمگلنگ روکنے کے لیے فروری میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطابندیال نے سپر ٹیکس کے نفاذ سے متعلق درخواست پر تین رکنی بینچ کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ملک کے مفاد کے لیے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت غیر ملکی کرنسی کی بیرون ملک اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔حکومت کی جانب سے ڈالر کی غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ اور سٹے بازی کے خلاف کریک ڈاؤن کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسمگلنگ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے، ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو صرف اسمگلنگ کی وجہ سے سالانہ 270 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے،اس کے علاوہ سرحدوں پر الگ سے کاروبار جگمگا رہا ہے، اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں مگر یہ کاروبار پاکستان کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے ، سالانہ اسمگلنگ کی مد میں پاکستان کو 270 ارب سے زائد کا ہونے والا نقصان پاکستان کو ملنے والے قرض سے بھی زیادہ ہے۔ اسمگلنگ ملکی اقتصادیات کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے، اس پر جتنی جلد قابو پا لیا جائے اتنا اچھا ہے ورنہ یہ ناسور ملکی معیشت کو کھا جائے گا۔
|