آزاد کشمیر میں ”این ٹی ایس“ ہی ضروری کیوں۔۔۔۔؟عابد صدیق


گذشتہ کئی دنوں سے سوشل اور پرنٹ میڈیا میں ”این ٹی ایس“ کے عنوان سے ایک مہم چل رہی ہے جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے یہ کوئی قانون تھا یا یہ کوئی سرکاری ادارہ تھا جسے حکومت ختم یا بند کرنا چاہتی ہے۔حکومت کے بعض وزراء کی جانب سے بھی اسی طرح کے بیانات آرہے ہیں کہ ”این ٹی ایس“ ختم نہیں ہو رہا۔ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ”این ٹی ایس“ ہے کیا،اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، اور اس کی آفادیت کتنی ہے اور یہ کتنا موثر ادارہ ہے یعنی اس پر کتنا یقین کیا جا سکتا ہے۔
کوئی بھی طالبعلم جو یونیورسٹی میں داخلہ لینے یا ملازمت کا متمنی ہو، اسینیشنل ٹیسٹ سروسز یعنی این ٹی ایس (NTS) کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ این ٹی ایس، نیشنل ٹیسٹنگ سروس کا ہی مخفف ہے اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتاہے کہ یہ امتحان کا ایک باقاعدہ نظام ہے جوکہ پاکستان میں بہت معروف ہے۔ ا س نظام کے تحت یونیورسٹی میں داخلوں اور اداروں کی خالی اسامیوں کیلئے طلباء کی صلاحیتوں کو پَرکھا جاتاہے۔این ٹی ایس ایک پرائیویٹ کمپنی ہے جو پاکستان میں 2002 میں کمپنی ایکٹ 20017 کی سیکشن 42 کے تحت رجسٹرڈ ہوئی تب سے یہ نہ صرف پاکستان کی سب سے پہلی بلکہ سب سے بڑی ایسی کمپنی ہے جو داخلہ جات اور نوکریوں کے لیے سروسز مہیا کر رہی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کیونکہ جب بھی مختلف ادارے ملازمت کے لیے خالی اسامی کا اعلان کرتے تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوتی تھیں، جس کے بعداہل امیدوار کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس ٹیسٹ کے تحت اب ان اداروں کو اپنے لئے اہل اور باصلاحیت امیدوار کے انتخاب میں مشکل پیش نہیں آتی۔
جیسا کہ مضمون کے ابتدائیہ میں یہ لکھا ہے کہ سوشل اور پرنٹ میڈیا اور حکومتی عہدیداران کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا اور عام لوگوں کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ کوئی سرکاری ادارہ ہے کیونکہ اس کوپاکستان میں تعلیمی اداروں اور تمام فیلڈز کے شعبوں نے بہت زیادہ قابل قدر گرداناہے۔پچھلے چند سالوں سے آزاد کشمیر میں بھی اسے خاصی پذیرائی ملی۔ این ٹی ایس دراصل ایک پرائیویٹ ادارہ ہے، جو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تحت چلتاہے۔
پاکستان میں گزشتہ 15 برس سے جاب ٹیسٹنگ ادارے کام کر رہے ہیں جن میں مشہور نیشنل ٹیسٹنگ سروس، پاکستان ٹیسٹنگ سروس، اوپن ٹیسٹنگ سروس وغیرہ اور ان کا کام پاکستان بھر کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ٹیسٹ کے علاوہ نجی اور سرکاری اداروں اور بینکوں میں بھرتیوں اور ترقیوں کے لیے بھی ٹیسٹ لینا ہے۔ یہ تما م غیر سرکاری ادارے ہیں، پرائیویٹ نجی ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے نوکریوں کے امتحان کا اصل مقصد ملازمتیں اپنوں کو نوازنے کا نیا جدید طریقہ وردات ہے کیونکہ بیوروکریسی ٹیسٹنگ اداروں کے اعلیٰ حکام کو بلا کر اپنے من پسند افراد کو پاس کرنے کی شرط پر پروجیکٹ دیتی ہے شرط نہ ماننے والا ادارہ اس پروجیکٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔
ٹیسٹنگ ادارے حکومت سے بھی ہر اُمیدوار کے ٹیسٹ کنڈیکٹ کروانے کے پیسے لیتے ہیں اور اسی طرح اُمیدوار کو اس ٹیسٹ کے عوض بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے، جس اُمیدوارنے جتنی اسامیوں کے لیے اپلائی کرنا ہے وہ اتنی ہی دفعہ الگ الگ فیس ادا کرے گا اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کسی امید وار کو رزلٹ میں اعتراض کی صورت میں ری چیکنگ کی سہولت بھی میسر نہیں۔یہ ادارے ہر اُمیدوار کو صرف اپنا رزلٹ دیکھاتے ہیں حالانکہ اُمیدوار کو تمام اُمیدواروں کے نتائج تک رسائی دینی چاہیے۔ مگر ایساممکن نہیں ہوتا۔
ماضی میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان (این ٹی ایس) کے سابق چیف ایگزیکٹیو افسر ڈاکٹر ہارون رشید پر مالی بدعنوانی کے الزامات رہے ہیں اور اسناد جعلی ثابت ہونے پرانہیں سروس سے بھی فارغ کر دیا گیا تھا۔کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (سی آئی آئی ٹی) کے پروریکٹر کے عہدے پر فائز ہارون رشید کو تحقیقی مقالے میں 72 فیصد چوری شدہ مواد شامل ہونے کا الزام ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا۔کامسیٹس کے بورڈ آف گورنرز نے جون 2016 میں ہارون رشید کی برطرفی کا فیصلہ کیا، جبکہ پریسٹن یونیورسٹی پہلے ہی ان کو عطا کی گئی پی ایچ ڈی کی ڈگری سرقہ کی بناء پر واپس لے چکی تھی۔ بورڈ آف گورنرز نے فیصلہ کیا کہ انھیں ملازمت سے برطرف کردیا جائے کیونکہ پروریکٹر کے عہدے کے لیے پی ایچ ڈی بنیادی شرط ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہارون رشید اس وقت بھی نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) تھے، اس وقت بھی اجلاس کے دوران این ٹی ایس کا کردار زیر بحث آیا، تاہم اس کی قسمت کا فیصلہ بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو اب تک نہ ہو سکا۔بات یہاں پر رکی نہیں بلکہ ڈاکٹر ہارون رشید کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات بھی عائد کیے گے اور عدالت نے ان کے ورانٹ گرفتاری تک بھی جاری کیے لیکن سیاسی بنیادوں پر تحفظ ملنے کے باعث ہمیشہ بچتے رہے اور آزاد کشمیر میں بھی ان کی ”انٹری“ سیاسی بنیادوں پر ہی ممکن ہو سکی۔(یہ تفصیلی کسی اگلے مضمون میں لکھی جائے گی)۔
کوئی ادارہ ان ”ٹیسٹنگ اداروں“سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ شروع سے ہی دوسرے اداروں میں ٹانگ اڑائی کی بدعت چل رہی ہے۔ نتیجہ جگ ہنسائی اور عوام کی پسپائی ہے۔ عوام ہر لمحہ ہر موڑ پر نقصان اٹھا رہی ہے۔ ادارے چلانے والوں کے اس لڑائی کے باوجود اثاثے بنتے اور بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ عوام مزید لٹتی جا رہی ہے جو جمع پونجی ہے وہ بھی ادارے بری طرح سے جونک کی طرح چوس رہے ہیں۔جیسے خود ”این ٹی ایس“ کا ادارہ جو ایک غیر منافع بخش کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے،2022 کی اس کی اپنی فننانشل رپورٹ کے مطابق اس کے اثاثہ جات 87 کروڑ سے زیادہ ہیں۔
این ٹی ایس کے بعد کرپشن میں اضافہ ہی ہو ا ہے کمی نہیں۔ اگر این ٹی ایس کوہی تعلیم کا معیار بنانا ہے تو پھر سکولوں کالجز ’یونیورسٹیوں کے امتحانات کو ختم کر دیا جائے وہاں طلبا بورڈز کے امتحانات دینے کی بجائے اداروں کے اندر ہی منعقدہ امتحانات دیں، کامیاب ہوں اور این ٹی ایس میں اپنی آخری قابلیت کا اظہار کریں۔
اس سارے پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں ہائیر کرنے کی بجائے اپنے اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ہمارے سارے ادارے کرپٹ ہیں نہ بددیانت،صرف اعتماد سازی کا فقدان اور کمزور گرفت آڑے آتی ہے۔حکومت کو پبلک سروس کمیشن کو فعال کرنا چائیے،وہی پٹرن جو این ٹی ایس یا کوئی اور ادارہ اپنا رہا ہے اسے ہی حکومت اپنے ادارے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ(آئی ٹی) کی تواسط سے اپنا سکتی ہے۔ویسے بھی اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے ہی سب کچھ ممکن ہے تو پھر حکومت خود کیوں نہیں ایسا کر سکتی۔اس سے ایک تو اپنے اداروں پر اعتماد بڑھے گا،مالی طور پر بھی فائدہ ہو گا اور ٹیسٹینگ کی فیسیں کم کر کے امیدواروں کو بھی فائدہ پہچایا جا سکتا ہے۔”این ٹی ایس“ کوئی الہ دین کا چراغ نہیں کہ اس کے بغیر شفافیت نہیں آ سکتی،حکومت سنجیدگی سے کرے تو سب کچھ ممکن ہے۔




Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 42538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.