سی پیک کے سماجی ثمرات

حالیہ عرصے میں پاکستان میں سی پیک کی تعمیر کے تحت لا تعداد تعمیراتی منصوبوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا گیا ہے جو ملک کی معاشی سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں فعال چینی کمپنیاں جہاں بنیادی ڈھانچے اور معیشت سے جڑے منصوبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں وہاں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو بھی اہمیت حاصل ہے۔اس کی ایک مثال گوادر میں چین کی مالی اعانت سے تعمیر کردہ پانی کا ڈی سیلینیشن پلانٹ بھی ہے۔گوادر میں ڈی سیلینیشن کی سہولت اس چھوٹے سے ماہی گیر قصبے کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کر رہی ہے، جہاں پینے کے صاف پانی کی مسلسل قلت ایک دیرینہ چیلنج تھا۔گوادر کو طویل عرصے سے پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا تھا، کیونکہ شہر کو پانی کی واحد فراہمی سینکڑوں کلومیٹر دور تربت میں تھی۔ لیکن اب بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ایک فلیگ شپ منصوبے کے طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری یا سی پیک کی بدولت گوادر میں نمایاں طور پر بہتر انفراسٹرکچر اور رابطہ سازی کے ساتھ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
جب سے چین نے گوادر میں ترقیاتی کام شروع کیے ہیں، مقامی لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔چینی کمپنیوں نے مقامی شہریوں کو بجلی، سڑک جیسا بنیادی ڈھانچہ اور پینے کا صاف پانی بھی فراہم کیا ہے، جو مقامی لوگوں کی سب سے بڑی ضروریات میں سے ایک تھا۔جدید ترین چائنا ایڈ ڈی سیلینیشن پلانٹ مقامی لوگوں کے لئے گیم چینجر ثابت ہوا ہے جنہیں صاف پانی کے حصول میں مسلسل مشکلات کا سامنا تھا۔اس پلانٹ کی گنجائش یومیہ 1.2 ملین گیلن ہے جو گوادر کی کل پانی کی ضروریات کا پانچواں حصہ ہے۔ لہذا اس منصوبے کی بدولت شہر کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں نمایاں مدد مل رہی ہے اور پانی کی قلت کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا جا رہا ہے۔
گوادر ڈی سیلینیشن پلانٹ چین اور پاکستان کے درمیان تعاون کا ایک ایسا باب ہے جس کے تحت گوادر کے پانی کے بحران کو حل کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ گوادر جیسے ایک دور افتادہ ماہی گیری کے گاؤں کو ایک اعلیٰ معیار کی بندرگاہ، ایک علاقائی تجارتی مرکز اور ایک دوسرے سے منسلک مرکز کے طور پر ترقی دینے کی وسیع تر کوششوں کا ایک اہم عنصر ہے۔یوں سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے گوادر کو ایک اہم سمندری مرکز میں تبدیل کر رہا ہے۔اس ضمن میں ڈی سیلینیشن پلانٹ اس وسیع تر وژن کی صرف ایک مثال ہے، اور شہر سڑکوں، ریلوے اور گوادر بندرگاہ کی توسیع سمیت بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں خاطر خواہ پیش رفت دیکھ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) شراکت داروں نے کامیابیوں کی ایک دہائی کو شاندار انداز سے منایا ہے، جس سے پاکستان سمیت بی آر آئی کے شراکت دار ممالک کو ٹھوس فوائد اور مواقع مل رہے ہیں۔2013 میں چین کی جانب سے تجویز کردہ بی آر آئی کا مقصد ایشیا کو یورپ، افریقہ اور اس سے بھی آگے منسلک تجارتی اور بنیادی ڈھانچے کا نیٹ ورک بنانا ہے۔ جون 2023 تک، چین نے پانچ براعظموں میں 150 سے زیادہ ممالک اور 30 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زیادہ بی آر آئی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا چین پر اعتماد رکھتی ہے اور چین کی ترقی کے تجربے سے مستفید ہونا چاہتی ہے۔یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ جوں جوں بی آر آئی منصوبہ جات کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں اس کے تمام 150 سے زائد شراکت دار ممالک اور خطےمزید نمایاں ترقی دیکھیں گے،جس سے وسیع تناظر میں عالمی معاشی سماجی ترقی کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا جا سکے گا۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1335 Articles with 620964 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More