ہندوستانی سپریم کورٹ کا کشمیر فیصلہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
ہندوستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے ' بی جے پی ' حکومت کے5اگست2019کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کے خاتمے اور اسے ہندوستانی دارلحکومت نئی دہلی کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے اقدام کو درست قرار دینے کے فیصلے سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ہندوستان نواز سیاسی جماعتوں کی امیداور ساکھ پہ پانی پھر گیا جو ہندوستانی عدلیہ سے انصاف کی توقع وابستہ کئے ہوئے تھے۔عشروں کی صورتحال دیکھتے ہوئے یہ بات پہلے ہی واضح ہو چکی تھی کہ ہندوستانی عدلیہ کشمیر کے معاملے میں حکومت کے ظلم و ستم ، جبر کے اقدامات میں سہولت کاری کا کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری حلقوں کی طرف سے ہندوستانی حکومت کے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کے خاتمے اور اب ہندوستانی عدلیہ کی طرف سے اس حکومتی اقدام کی توثیق کی مذمت کی جارہی ہے۔پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جموں وکشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کیا جانا ہے۔نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں، مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور ایک مسلمہ متنازع علاقہ ہے، بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کے تعین کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل مسترد کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی آئین کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میں بھی غلط فیصلہ دیا تھا، بھارتی عدالت کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے مزید کہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا، بھارت کا جموں کشمیر پر قبضے کا پلان ناکام ہو گا، کشمیری عوام بھارت کا 5 اگست کا یک طرفہ اقدام مسترد کر چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کشمیری عوام کے حق خود اختیاری پورا نہیں کر سکتے، بھارت 1952 کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کر رہا ہے، پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کا جلد اجلاس بلائے گا، کشمیریوں کو احساس ہے پاکستان کشمیریوں کے موقف کے ساتھ کھڑا ہے۔
1986 میں مقبوضہ کشمیر میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے ہندوستان کے خلاف عشروں سے جاری جدوجہد کے ایک نئے رخ نے دنیا بھر کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرائی۔ہندوستان کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمت سیاسی اور عسکری بنیادوں پہ سرگرمی سے شروع ہوئی۔گزشتہ37سال کے دوران کشمیریوںکی اس بے مثال جدوجہد میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کئے گئے، ہزاروں معذور، ہزاروں قید ، ہندوستان کی طرف سے عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے، ہندوستانی فوج کی طرف سے اجتماعی طور پر ہلاک کئے گئے کشمیریوں کی اجتماعی قبریں، مقبوضہ کشمیر کے ہر علاقے میں شہدائے آزادی کے قبرستان اور عالمی اداروں تنظیموں اور اہم ملکوں کی مختلف رپورٹس میں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی مظالم کے اس سلسلے کی گواہی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
گزشتہ 37سال کے دوران مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے دوران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی غلطیاں اور پھر کشمیریوں کی جدوجہد سے لاتعلقی کے عملی اقدامات نے کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کی فیصلہ کن انداز میں حوصلہ افزائی کا کردار ادا کیا۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں کی طرف سے کشمیریوں کی سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی مدد کے اعلانات کا بار بار اعادہ تو کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر کشمیر کاز کے حوالے سے نہ تو سیاسی، نہ سفارتی اور نہ ہی اخلاقی تقاضوں پر کام کرنے پر توجہ دی گئی۔ یوں سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی مدد کا جملہ ایسا کھوکھلے دعوے کے طور پر درپیش ہے جس کے تقاضوں پر کام کرنے میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ڈیموگرافک چینجز کا ہندوستانی منصوبہ2013-14میں ہی کھل کر سامنے آچکا تھا لیکن پاکستان میں اس موضوع پہ محض سیمینار اور این جی اوز کی تقریبات کو ہی کافی سمجھا گیا،ہندوستان کے اس منصوبے کو کائونٹر کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ کشمیریوں کو ہندوستان کے سامنے تنہا چھوڑ دیا گیا۔اسی عرصے سے پاکستان میں یہ واضح ہو گیا کہ کشمیر کاز سے متعلق این جی اوز کے غیر سنجیدہ اور کاروباری انداز کی سرگرمیوں کو ہی کشمیر کاز کی ذمہ داری کی ادائیگی میں محدود کر دیا گیا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے قدم بقدم کشمیر کاز سے پیچھے ہٹنے کی جو حکمت عملی اپنائی، اس نے اب پاکستان کو وہاں پہنچا دیا ہے کہ کشمیر کاز کے لئے پاکستان کی سرگرم کردارکو موثر بنانے کی توقع بھی دم توڑتی نظر آر ہی ہے۔
کشمیر کاز سے پسپائی کی اس حکمت عملی کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر میں دبائو کا شکار ہندوستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی ایک سنگین خطرے کے طور پر نمایاں ہوا ہے۔چند ہی دن قبل ہندوستانی میڈیا میں شائع ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ہندوستان نے پاکستان میں مقیم اپنے مطلوبہ48افراد میں سے22افراد کو اپنی انٹیلی جنس ایجنسی ' را' کے ذریعے قتل کرایا ہے۔' را' کے ایک سابق سربراہ اے ایس دلت نے چند ماہ قبل ' دی وائر' کو دیئے گئے ایک وڈیو انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ اب مقبوضہ جموں وکشمیر میں کوئی بھی ہندوستان سے کوئی توقع نہیں رکھتا، کشمیریوں کی ہندوستان سے نفرت انتہا کی حدیں بھی عبور کر چکی ہے۔کشمیر کاز سے متعلق غلط، نقصاندہ پالیسی اپنانے والی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں بھی ایسی حکمت عملی اپنائی کہ جس کے تباہ کن نتائج اب ملک اور عوام کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔تشویشناک صورتحال تو یہ ہے کہ یہاں بہتری کی راہ اختیار کرنے کے اقدامات بھی نظر نہیں آ رہے، چناچہ بہتری کے خواب دیکھنے پہ بھی غیر اعلانیہ پابندی درپیش ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429 |